پابندی کے بعد دنیا بھر میں ’’برقینی‘‘ کی فروخت میں 200فیصد اضافہ
کینبرا (بی بی سی+ آئی این پی) اسلامی طرز کا مکمل تیراکی کا لباس ’برقینی‘ بنانے والی آسٹریلین خاتون کا کہنا ہے کہ پیرس میں برقینی پر پابندی نے اس کی فروخت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اس لباس میں جسے ’برقعہ‘ اور ’بکینی‘ کے الفاظ کے امتزاج سے ’برقینی‘ کا نام دیا گیا ہے خواتین کے صرف چہرہ، ہاتھ اور پاؤں دکھائی دیتے ہیں۔ آہدہ زنیتی جو برکینی یا بْرقینی نام کو اپنا ٹریڈ مارک قرار دیتی ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے اس لباس کی فروخت میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تیراکی کا یہ لباس آزادی اور صحت مند زندگی کا ترجمان ہے نہ کہ جبر کا۔ زینتی کا کہنا ہے کہ اس لباس کے بنانے کا بنیادی مقصد مسلمان خواتین کو بھی آسٹریلیا کی ساحلی زندگی میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’میں چاہتی تھی کہ میری بیٹیاں بڑی ہوں تو ان کے پاس چیزوں کے انتخاب کی آزادی ہو۔‘ ’مجھے فرق نہیں پڑتا اگر وہ بکینی کا انتخاب کرتی ہیں۔ یہ ان کی مرضی ہے۔ اس پوری دنیا میں کوئی مرد نہیں جو ہمیں یہ بتائے کہ ہم کیا پہنیں اور کیا نہیں۔‘ ان کے بقول وہ کسی حد تک فرانس میں برقعہ پر پابندی اور اسلام کے پھیلاؤ کی حوصلہ شکنی کی خبروں سے متاثر ہوئی تھیں۔ فرانس کے بیشتر علاقوں میں حکام نے اس لباس پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی ہے کہ یہ سکیولرازم کے قانون کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا 40فیصد برقینی غیرمسلم خواتین خریدتی ہیں۔ کینسر سے بچائو اور سورج کی روشنی سے بچائو کیلئے خواتین لینے آتی ہیں۔ مسلمان خواتین کا کہنا ہے برقینی پر بحث مضحکہ خیز ہے۔ برقینی پر پابندی کے معاملے پر فرنچ کونسل آف مسلم فیتھز کے سربراہ فرانسیسی وزیر داخلہ برنارڈ تسیزینو سے ملاقات کرینگے۔