فوجی عدالتیں :اختلافات بر قر ار کمیٹی کا اجلاس پھر بے نتیجہ پی پی نے 4 مارچ کو اے پی سی بلالی
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے فوجی عدالتوں کی مدت مےں توسےع بارے مےں قائم کردہ پارلےمانی جماعتوں کی ذےلی کمےٹی کے ارکان جمعہ کو بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے آئےنی ترمےم پر اتفاق رائے پےدا کرنے مےں ناکام ہو گئی فوجی عدالتوں کے معاملے پر پارلیمانی رہنماﺅں کا آئندہ اجلاس منگل کو ہوگا فوجی عدالتوں میں توسیع کا نئی آئینی ترمیم کا مسودہ سیاسی جماعتوں کے سپرد کردیا گیا، فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کی تجویز دی گئی ہے، ریاست کے خلاف سنگین وارداتیں کرنے کے الفاظ بھی نئی ترمیم میں شامل کر دئےے گئے ہےں حکومت نے آئےنی ترمےم پر حکومتی اتحاد مےں شامل جمعےت علماءاسلام (ف) کے اعتراضات دور کر دئےے جبکہ پےپلز پارٹی اور تحرےک انصاف نے آئےنی ترمےم سے دہشت گردی کے تناظر مےں ”مسلک اور فرقہ“ کے الفاظ حذف کرنے پر اعتراض کر دےا جبکہ حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت3سال سے کم کر کے 2سال کرنے پر لچک اختےار کرنے کا عندےہ دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تاحال آصف علی زرداری کو اعتراضات ختم کرنے پر آمادہ نہےں کر سکے۔ پےپلز پارٹی کی قےادت نے پارلےمانی جماعتوں کی قےادت سے رابطے کئے ہےں۔ پےپلز پارٹی 4مارچ2017ءکو آل پارٹےز کانفرنس کی مےزبانی کے فرائض انجام دے گی ذےلی کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر قانون و انصاف کمیٹی کے کنوینئر زاہد حامد کی صدارت میں سپیکر چیمبر میں ہوا جس مےں مولانا فضل الرحمان نے خصوصی طور پر شرکت کی انہوں نے آصف علی زرداری سے اس معاملے پر ہونے والے رابطے کے بارے میں آگاہ کیا۔ اجلاس مےں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،شیریں مزاری، عثمان کاکڑ، غلام بلور، صاحبزادہ طارق اللہ، مشاہد اللہ خان ،ہدایت اللہ، شیخ صلاح الدین، سینٹر طلحہ محمود نے بھی شر کت کی۔ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ تمام جماعتیں متفق ہوں تو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے اصرار پر آئینی ترمیم میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ریاست کے خلاف سنگین اور پرتشدد کارروائیوں کا جملہ آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے اجلاس میں حکومت نے نیا آئینی مسودہ بھی پیش کر دےا ہے پارلیمانی رہنماﺅں کو آئینی ترمیم کے مسودے کے ساتھ ہی پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی ارسال کیا جائے گا۔ پارلیمانی جماعتوں کے قائدےن 28 فروری منگل کے اجلاس میں پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد حتمی رائے دیں گے۔ معلوم ہوا ہے قومی اسمبلی مےں پیپلز پارٹی کے پارلےمانی لےڈر نوید قمر نے فوجی عدالتوں کی مدت 3 سال کی بجائے 2 سال کرنے پر رضامندی ظاہر کی جبکہ ریاست کے خلاف کارروائی کے الفاظ میں بھی ترمیم کردی گئی ہے۔پیپلز پارٹی حکومتی مسودہ پارٹی قیادت کے سامنے پیش کرے گی۔ ذےلی کمےٹی کے اجلاس مےں اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں کے ساتھ نگراں کمیٹی کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہیں، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے نگراں کمیٹی کے قیام پر زور دیا۔ مذہبی دہشت گردی کے الفاظ کے معاملے پر سیاسی رہنماﺅں میں اختلافات بدستور موجود ہیں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع پر اتفاق رائے کےلئے پارلیمانی رہنماﺅ ں کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے آیا ہوں۔ پیپلزپارٹی نے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ ٹی وی کے مطابق پارلیمانی رہنما¶ں کا ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ رہا جبکہ پیپلزپارٹی نے 4 مارچ کو اے پی سی طلب کر لی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔ اجلاس میں پارلیمانی رہنما کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے جس کے بعد فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ ذیلی کمیٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حوالے سے ذیلی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ اس سے قبل دو روز پہلے بھی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ رہا تھا۔ نوید قمر نے کہا حکومت نے نئی ترامیم فضل الرحمن کو خوش کرنے کیلئے کی ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔ ملک میں قیام امن کیلئے ایک پیج پر ہیں۔ مذہب اور ریاست کو مقابلے میں لانا ملکی مفاد کیخلاف ہے۔ پی پی کے م¶قف پر حیرت ہے۔ پی ٹی آئی سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ترمیم کی تیاری کیلئے سب کمیٹی میں توسیع کردی گئی ہے، سینٹ سے ارکان بھی نامزد کردیئے گئے ہیں۔ پارلیمانی قائدین کے منگل کو اجلاس میں سب کمیٹی مجوزہ ترمیمی مسودہ پیش کرے گی۔ توقع ہے کہ منگل کو مسودے کے حوالے سے پیشرفت ہوجائے گی۔ پیپلزپارٹی نے اے پی سی کیلئے تمام پارلیمانی جماعتوں سے رابطہ کیا ہے پارلیمانی جماعتوں کے رہنما¶ں کو 4 مارچ کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے مجھے فون کر کے اسے پی سی کے بارے میں بتایا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی ہے تحریک انصاف اے پی سی میں شرکت کرے گی۔مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر تےار ہےں تو ”کراہت اور ناپسندیدگی“ کے ساتھ ہم بھی قبول کرنے کو تیار ہیں تاہم ”مذہب اور مسلک“ کو انسداد دہشت گردی قانون سے علیحدہ نہ کیا گیا تو اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ دہشت گردی کو مذہب اور فرقے سے جوڑنا درست نہیں‘ ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے اسے دہشت گرد سمجھ کر کارروائی کی جانی چاہئے‘ آصف علی زرداری نے میری بات مان کر فوجی عدالتوں سے متعلق کمیٹی کا بائیکاٹ ختم کرکے اپنا نمائندہ بھیجا ہے اس پر ان کا شکر گذار ہوں۔ فوجی عدالتوں کی دو سالہ کارکردگی کیا ہے اس حوالے سے آج جو سوال پیدا ہورہے ہیں اگر کمیٹی قائم ہوتی تو یہ سوال پیدا نہ ہوتے تحریک انصاف فوجی عدالتوں کے معاملے پر مذہبی طبقے کو ریاست کے مقابلے پر لانے کی کوشش نہ کرے‘ اسٹیبلشمنٹ کے کسی مذہب و مسلک کے خلا ف ہونے کی رپورٹ نہیں ملی‘ مذہب اور ریاست کو مقابلے میں لانا ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا موجودہ صورتحال میں نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت بڑھ گئی ہے یا نیشنل ایکشن پلان ناکام ہوچکا ہے کیا فوجی عدالتوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے یا فوجی عدالتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں امن چاہئے اگر پوری پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیںاس بات پر متفق ہیں کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہونی چاہئے تو ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔