سانحہ ماڈل ٹاون: بچے کیوں مارے گئے، جاننا متاثرین کا حق نہیں ؟ ہائیکورٹ: فیصلہ محفوظ، آج سنائے جانے کا امکان
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کی عدالتی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے دائردرخواست پرفیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسٹس سیدمظاہر علی اکبر نقوی نے سماعت کی۔ متاثرین کے وکیل نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں چودہ بے گناہ افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے، ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمشن بنایا، انکوائری رپورٹ مکمل کر کے پنجاب حکومت کے حوالے کر دی گئی تاہم ابھی تک اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا، معلومات تک رسائی ہر شہری کا آئینی حق ہے اور جوڈیشل رپورٹ شائع نہ کرنا اس آئینی حق کی نفی ہے، ماڈل ٹاون کے استغاثہ میں جوڈیشل انکوائری رپورٹ انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے، جوڈیشل کمشن کی انکوائری سے مظلوموں کو انصاف مل سکتا ہے،انہوں نے استدعا کی کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل کمشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ حکومت نے یہ انکوائری اپنی معلومات کےلئے کرائی تھی، اسی نوعیت کی درخواستوں پر فل بنچ سماعت کر رہا ہے لہٰذا ان درخواستوں کو بھی سماعت کےلئے فل بنچ کو بھجوا دیا جائے، جس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدالت ایڈووکیٹ جنرل کے آفس کے حکم پر نہیں چلتی،ع دالت صرف اللہ کو جواب دہ ہے، کیا وہ عدالت ہوتی ہے جہاں لوگوں کو پہلے سے ہی ہونے والے فیصلوں کا علم ہو جائے۔ سانحہ میں لوگ شہید اور زخمی ہوئے مگر رپورٹ چھپا کر رکھی ہے، ٹربیونل عوامی مفاد کے لیے بنایا گیا تھا، رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے متاثرین نے عدالت سے رجوع کیا ، حکومت نے خود لیٹر لکھ کر جج کو تعینات کرایا، کیا درخواست گزاروں کو جاننے کا حق نہیں ہے کہ ان کے بچے،بہن، بھائی اور باپ کو کیوں اور کیسے مارا گیا، عدالت نے فریقین کے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے۔ سماعت کے بعد خرم نواز گنڈا پور نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدالتیں صرف اللہ کو جوابدہ ہیں اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہیں ہم عدالتوں پر یقین رکھتے ہیں، جو بھی فیصلہ آئے گا وہ متاثرین کے لیے انصاف کی بنیاد رکھے گا۔