مارچ ریڈ زون میں آنے سے قومی اسمبلی، سینٹ کے اجلاسوں کا انعقاد مشکل ہو گا
اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) پارلیمنٹ ہائوس، ایوان صدر، سپریم کورٹ اور سول سیکرٹریٹ کے سامنے شاہراہ دستور جو وزارت خارجہ کے سامنے سے گزرتی ہے کو ریڈ زون نائن الیون کے بعد قرار دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پاکستان کی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے کئی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ 1983ء میں فقہ جعفریہ کے حامیوں نے جنرل ضیاء کی طرف سے نافذ کئے گئے زکٰوۃ و عشر آرڈیننس کے خلاف اس علاقے میں دھرنا دیا تھا جس کے نتیجہ میں زکٰوۃ و عشر آرڈیننس میں ترمیم کی گئی۔ محمد خان جونیجو کی حکومت کے دوران پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے شریعت محاذ نے یہاں بڑے بڑے جلسے منعقد کئے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے 90ء کی دہائی بھی کئی سیاسی جماعتوں اور دوسری تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کئے لیکن جب سے پاکستان دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کی زد میں آیا ہے پارلیمنٹ ہائوس، وفاقی سول سیکرٹریٹ اور اس سے ملحقہ وزیراعظم سیکرٹریٹ، ڈپلومیٹک انکلیو کو ریڈ زون قرار دیا گیا اور اس کی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی۔ سابق چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کی بحالی کے لئے شروع کی گئی وکلا تحریک کے شرکاء پارلمینٹ ہائوس اور سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ زرداری دور میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دو سال قبل پارلیمنٹ ہائوس سے کچھ فاصلے پر تین روز تک دھرنا دیا تھا۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے آزادی اور انقلاب مارچ کے احتجاجی دھرنے ریڈ زون میں کرنے کی اجازت مانگی تھی حکومت نے اس پر اجازت نہیں دی۔ گزشتہ رات آزادی مارچ اور انقلاب مارچ زبردستی ریڈ زون داخل ہو گئے۔ دونوں مارچ کے شرکاء ریڈ زون میں داخل ہوئے ہیں اور وہاں کچھ دنوں کے لئے دھرنا دیتے ہیں تو اس صورت میں پارلیمنٹ میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس کا انعقاد ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے اگر شاہراہ دستور کو بند کر دیا تو وفاقی حکومت کے سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔