افغان مہاجرین کی جلد واپسی‘ افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارے سے بات چیت کا فیصلہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + اے پی پی) حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی جلد واپسی کو یقینی بنانے کیلئے فوری ٹھوس اقدامات کرنے کے سلسلے میں افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔ یہ فیصلہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔ وزارت خارجہ ہونے والے اجلاس میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی پر مؤثر عملدرآمد کے طریقہ کار کی تشکیل اور ان کے انتظام اور اس سلسلہ میں پیشرفت کے حوالہ سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ اجلاس 28 جون کو وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں طلب کیا گیا جس میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں 6 ماہ کی توسیع دی گئی تھی۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزارت خارجہ اس معاملہ پر افغانستان کی حکومت سے سیاسی اور سفارتی سطح پر بات چیت کرے گی جبکہ سیفران کی وزارت اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے اور افغانستان کی پناہ گزینوں سے متعلقہ وزارت کے ساتھ معاملات طے کرے گی تاکہ پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی محفوظ اور مرحلہ وار وطن واپسی کو یقینی بنایا جا سکے اور انہیں جلد سے جلد افغانستان کے ان پرامن علاقوں میں بھجوایا جا سکے جہاں افغان حکومت ان کیلئے انتظامات کرے۔ اجلاس میں موجودہ سیاسی، سماجی و اقتصادی اور سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں افغان مہاجروں کی عزت و وقار کے ساتھ جلد وطن واپسی کی ضرورت پر زور دیا گیا تاہم اجلاس میں اس امر کو بھی اجاگر کیا گیا کہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پائیدار بنیادوں پر ہونی چاہئے افغانستان میں ان کی وطن واپسی کے سلسلہ میں کوششیں کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اجلاس میں 19 جولائی کو پاکستان میں افغان پنان گزینوں کی وطن واپسی کے معاملہ پر سہ فریقی کمشن کے اجلاس کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا جس میں حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین اور افغانستان کے متعلقہ وزیر کے ساتھ تفصیلی اور باقاعدہ طور پر یہ معاملہ اٹھائے گی۔ اجلاس میں پاکستان کے حالیہ دورہ کے دوران اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر کے اعلان کا بھی خیرمقدم کیا گیا جس میں انہوں نے وطن واپس جانے والوں کیلئے امداد کو 200 ڈالر سے بڑھا کر 400 ڈالر فی کس کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اس اعلان سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں مدد ملے گی تاہم اجلاس میں یہ کہا گیا کہ افغان پناہ گزینوں کیلئے یہ ترغیب تبھی کار آمد ہو سکتی ہے جب افغانستان میں افغان حکومت پناہ گزینوں کیلئے تعلیم، صحت، پانی سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے ساتھ انہیں اپنے علاقہ تک رسائی دے اور ان کیلئے انفراسٹرکچر کی ترقی پر بھی توجہ دی۔ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ مستحکم، خوشحال اور پرامن افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے پاکستان افغانستان میں امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان بحالی اور تعمیرنو کیلئے بھی تعاون کرے گا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی ہدایات پر خیرسگالی کے جذبہ کے طور پر پاکستانی حکومت افغانستان میں قائم کی جانے والی افغان بستیوں کیلئے تین سال کے عرصہ تک مفت گندم فراہم کرے گی۔ اجلاس میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ افغان حکومت کی اپنی نقل مکانی کرنے والی آبادی کیلئے افغان حکومت کی کوششوں کے ساتھ تعاون کرے۔ امداد دینے والوں کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ پناہ گزین اور نقل مکانی کرنے والے افراد افغانستان کی قومی ترقی، حکمت عملیوں اور منصوبوں کا لازمی جزو ہیں۔ اجلاس میں زور دیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں سیاسی اور سفارتی ذرائع کے ذریعے ان مقاصد کیلئے ڈونرز سے رجوع کریں۔ افغان پناہ گزینوں کے معاملہ کو نیویارک اور برسلز میں آئندہ ہونے والی کانفرنسوں میں اٹھانے کا بہترین موقع ہو گا۔ سیکرٹری سیفران کی زیر صدارت ایک بین الوزارتی کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ وزیراعظم کے 28 جون کے احکامات کی روشنی میں حقیقی ایکشن پلان تشکیل دیا جائے اور اس سلسلہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور دیگر فریقین کے ساتھ مشاورت اور قریبی رابطہ استوار کیا جائے۔ دریں اثنا وفاق وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے دو ٹوک واضح کردیا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کا مزد بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھ سکتا۔ افغان مہاجرین کی واپسی پکی ہے۔ وفاقی حکومت مہاجرین کی واپسی کے لئے سنجیدہ ہے افغان مہاجرین کی جلد واپسی کے لئے ہرممکن اقدامات کر رہ ہے۔ 10 لاکھ افغان باشندے ملازمتوں پر قابض ہیں ان کی واپسی سے پاکستانیوں کی بیروزگاری میں نمایاں کمی آئے گی۔ انہوں نے خیبر پی کے حکومت کے موقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپس کے حوالے سے کے پی کے حکومت کا موقف درست ہے کہ افغان مہاجرین کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین آئندہ ماہ 19 جولائی کو افغان مہاجرین کی واپسی کے بارے میں تبادلہ خیال کے لئے پاکستان آئیں گے۔عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ افغان مہاجرین نے10لاکھ ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انہیں پاکستان میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ افغان حکومت کو مہاجرین کی واپسی سے متعلق پلان دیا تھا جس پر افغانستان نے عمل نہیں کیا، افغان مہاجرین کو ہر حال میں واپس جانا ہوگا لیکن ہم باعزت اور رضاکارانہ طریقے سے مہاجرین کی واپسی چاہتے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان افغانستان کے اندر کیمپوں میں موجود مہاجرین کو 3 سال تک مفت گندم فراہم کرے گی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی جانب سے وطن واپس جانے والوں کو امدادی رقم دوگنا کرنے کا خیرمقدم کیا گیا۔