دہشتگردوں سے مستقل نجات کیلئے قوم کا فوج کے شانہ بشانہ ہونا ضروری ہے
خیبر ایجنسی میں فورسز کے کلیئرنس اپریشن خیبر ٹو کے دوران 21 دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کیمطابق دہشت گردوں کے ساتھ اس لڑائی میں 8 فوجی جوان بھی شہید ہوئے۔ اس اپریشن کے دوران کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے امیر منگل باغ کے بیٹے کی ہلاکت کی بھی اطلاع ملی ہے ۔ سکیورٹی حکام کےمطابق باڑہ کے نواحی علاقے سپن کبر باڑہ میں اپریشن خیبرٹو کے دوران یہ لڑائی ہوئی۔ آئی ایس پی آرکیمطابق دہشت گردوں کی اطلاع پر اپریشن کے دوران دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ خیبر ایجنسی سے نامہ نگار کیمطابق خیبرایجنسی کی تحصیل باڑہ کے دور افتادہ پہاڑی علاقے تیراہ اکاخیل میںجیٹ طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں بھی 20 دہشت گرد ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے، بمباری سے چار ٹھکانے بھی تباہ ہوگئے۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں نے باڑہ اکاخیل اور سپاہ میں بھی دہشت گردوں کے مشتبہ ٹھکانوں کونشانہ بنایا ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پشاور کا دورہ کیا اور آپریشن خیبر ٹو میں شہید جوانوں کی اجتماعی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ انہوں نے سی ایم ایچ میں زخمی جوانوں کی عیادت کی اور جوانوں کے بلند حوصلے اور بہادری کو سراہا۔ نماز جنازہ کے بعد شہیدوں کے جنازوں کو سلامی دی گئی۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے اپریشن ضرب عضب عسکری ذرائع کے مطابق کامیابی سے جاری ہے۔ اس اپریشن میں اب تک 11 سو دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ منظم انداز میں جاری اپریشن کے دوران 132 ٹن سے زائد دھماکہ خیزمواد‘ چھ ہزار رائفلز‘ مختلف بور کی لاکھوں گولیاں اور دیگر ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں۔ فوج نے شمالی وزیرستان ایجنسی کی بڑی سڑکیں اور آبادیاں کلیئر کرالی ہیں تاہم اپریشن دہشت گردوں کے مکمل خاتمہ کے بعد ہی منطقی انجام کو پہنچے گا۔ اپریشن سے قبل شمالی وزیرستان میں ہزاروں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات تھیں۔ اپریشن سے قبل یا اپریشن شروع ہوتے ہی اکثر دہشتگرد شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر افغانستان چلے گئے یا پاکستان میں مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ ان میں سے کچھ نے فاٹا کے دیگر علاقوں میں جمع ہو کر دہشت گردی کی کارروائیوں کا نئے سرے سے آغاز کیا تو فوج نے ان کا تعاقب کیا اور وادی تیراہ‘ باڑہ اور خیبر ایجنسی میں ان پر شدید ضرب لگائی۔ ان علاقوں میں اب تک 41 دہشت گرد مارے گئے اور 100 سے زائد گرفتار ہوئے ہیں۔
پاک فوج جس مستعدی سے اپریشن کر رہی ہے‘ اب تک یہ کافی حد تک نتیجہ خیز ہو جانا چاہیے تھا مگر یہ طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اپریشن کی نوعیت دیکھی جائے‘ حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ اپریشن مہینوں سے بڑھ کر برسوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ پاک فوج کو صرف دہشت گردوں کیخلاف ہی لڑنا نہیں پڑ رہا‘ دہشت گردوں کے اندرونی اور بیرونی پشت پناہ بھی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جنرل باجوہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اپریشن کے آغاز سے قبل ہر سطح پر افغانستان سے رابطہ کیا گیا تھا‘ اسکے باوجود افغانستان کی طرف سے تعاون نظر نہیں آرہا۔ افغان صوبوں کنٹر اور نورستان میں فضل اللہ اور اسکے ساتھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں‘ افغان حکومت اس کا نوٹس نہیں لے رہی۔ کرزئی کے دور میں پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال ہوتی رہی‘ نئی سیاسی قیادت سے وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ امور سرتاج عزیز نے کابل میں ملاقات کی تھی۔ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات کے قیام کا یقین دلایا تھا لیکن اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سرتاج عزیز کے دورے کے دوسرے ہی روز افغان سرحد پار سے گولہ باری کی گئی۔ کیا ایجنسیاں‘ نیشنل گارڈز اور نیٹو افواج نئی سیاسی قیادت کے کنٹرول میں نہیں ہیں؟ افغانستان جیسی کنٹرولڈ ڈیموکریسی میں فضل اللہ اور ساتھیوں کی سرحد پار کارروائیاں امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔ حکومت پاکستان کا احتجاج کیلئے رخ امریکہ کی طرف بھی ہونا چاہیے۔ حامد کرزئی کی حکومت ہو یا نئی سیاسی قیادت‘ ان کی حیثیت امریکہ کی کٹھ پتلی جیسی ہے۔
مغربی سرحد پر ہونیوالی دہشتگردی کو روکنا علاقے کے لوگوں کو ساتھ ملائے بغیر ممکن نہیں۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کا 25 سو کلومیٹر متنازعہ بارڈر ہے‘ اس پر فوج کی تعیناتی ممکن نہیں۔ محب وطن قبائلی عوام فوج کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنا تحفظ بھی درکار ہے۔ دہشت گردوں نے پرامن اور محب وطن ہزاروں قبائلیوں کو بم دھماکوں اور حملوں میں مار ڈالا۔ اب فوج پوری تیاری کے ساتھ انکی مدد کو پہنچ رہی ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ افغانستان سے داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی کارروائیوں پر قابو پایا جا سکے گا۔
بلاشبہ اپریشن ضرب عضب کی کامیابی سے دہشت گردوں کے پشت پناہ کڑھ رہے۔ ضرب عضب کو ناکام بنانے کیلئے وہ اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کی لائن آف کنٹرول پر شرانگیزی اور افغانستان کی طرف سے سرحد پار کارروائیاں پاک فوج کی اپریشن ضرب عضب سے توجہ ہٹانے کی سازش ہو سکتی ہے۔ ادھر بلوچستان میں دہشتگردوں کی کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے۔ ہزارہ قبائل پر حملے ہو رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ یوں لگتا ہے کوئٹہ کو بارود کا ڈھیر بنایاجارہا ہے۔
ایف سی نے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کوئٹہ کے علاقے گلستان میں عبدالرحمان زئی کے علاقے میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر بھاری مقدار میں اسلحہ بارودبرآمد کیا گیا۔برآمد کئے گئے اسلحے میں خود جیکٹس، ڈیٹونیٹر، راکٹ لانچرز، کلاشنکوف، پستول، دستی بم اور بم بنانے والے آلات شامل ہیں۔ اسکے علاوہ ایف سی نے گھر سے سیکڑوں کی تعداد میں گولیاں اور درجنوں واکی ٹاکی بھی اپنے قبضے میں لے لئے ہیں۔ یہ بیرونی عوامل کی پاکستان کے غداروں کو ساتھ ملا کر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی پلاننگ ہو سکتی ہے۔ اب تو اس سرحد پر ایران کی طرف سے بھی ٹھنڈی ہوا کے بجائے بندوق بردار داخل ہو کر پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کر رہے ہیں۔
قوم دہشت گردوں کا جلد از جلد خاتمہ چاہتی ہے۔ یہ جنگ جس میں دہشت گردوں کو بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی مالی اور اسلحی امداد کی صورت میں حاصل ہے‘ اندرون ملک بھی کئی گمراہ حلقے دہشت گردوں کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ پوری قوم کے متحد ہوئے بغیر دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کیلئے ایک عرصہ درکار ہو گا۔ اس وقت تک ملک میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ دہشت گردوں کے مقابلے میں فوج کو مطعون کرتے رہے ہیں‘ ان کا فوج کے شانہ بشانہ ہونا بھی ضروری ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38