نوشکی ڈرون حملے پر امریکی حکام کیخلاف ایف آئی آر کا اندراج اور طارق فاطمی کا بے بسی کا اظہار
بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ہونیوالے ڈرون حملے کی ایف آئی آر لیویز کے مل تھانہ میں درج کرادی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر ڈرون حملے میں ہلاک ہونیوالے ٹیکسی ڈرائیور محمداعظم کے بھائی محمد قاسم کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے جس میں امریکی حکام کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ ایف آئی آر میں ایکسپلوسیو ایکٹ کی دفعات 5,4,3 ‘انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7۔اے اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 427, 109, 302 کے تحت نامزد ملزمان کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کی استدعا کی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں امریکی حکام نے ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان میں دراندازی کی گئی ہے‘ ہم ڈرون حملہ کرنیوالوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور محمداعظم بلوچستان کے علاقے تفتان کا رہائشی تھا جس کی جلی ہوئی لاش دوسری لاش کے ساتھ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں منتقل کی گئی جہاں محمداعظم کے علاوہ دوسری لاش کی شناخت ولی محمد کے نام سے کی گئی اور محمداعظم کی لاش اسے شناخت کرنیوالے اسکے رشتہ داروں کے حوالے کردی گئی۔ دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ امورطارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا‘ اس حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا درست نہیں‘ اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کر سکتا ہے مگر ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ ہمارے پاس ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جاسکے۔
ڈرون حملے بلاشبہ ہماری آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کیلئے کھلا چیلنج ہیں اور ہر ڈرون حملے پر دفتر خارجہ پاکستان اور دوسرے حکام کی جانب سے امریکہ کو احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے یہی باور کرایا جاتا ہے کہ یہ حملے ہماری سلامتی اور خودمختاری کے منافی ہیں‘ اس احتجاج کے باوجود امریکہ نے ہماری سرزمین پر ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں حالات کی مناسبت سے وہ کمی بیشی کرتا رہتا ہے اور مشیرامور خارجہ سرتاج عزیز کے بقول امریکہ 2004 ءسے اب تک ہماری سرزمین پر 390 ڈرون حملے کرچکا ہے تو کیا اس پس منظر سے بھی قوم کو آگاہ کرنا ضروری نہیں کہ ہمارے احتجاج کے باوجود امریکہ نے اب تک ڈرون حملے کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے نوشکی میں کئے گئے ڈرون حملے میں ہلاک ہونیوالے دوسرے شخص کی شناخت انکی ڈی این اے رپورٹ کے مطابق ملااختر منصور کے طور پر ہوچکی ہے تو یقیناً امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی بنائے گئے پاکستان کی سرزمین پر ملااختر منصور ہی کو ٹارگٹ کرکے ڈرون حملہ کیا ہے جس کیلئے امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا یہی جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اسے اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر کہیں بھی فضائی اور زمینی کارروائی کرنے کا حق حاصل ہے۔
اگر مشرف دور میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے اس کا کہیں بھی کارروائی کرنے کا اپنے تئیں حاصل کیا گیا استحقاق بھی تسلیم کیا گیا اور اسی بنیاد پر مشرف‘ بش معاہدے کی رو سے امریکہ کو پاکستان کے اندر بھی ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی گئی جسے آنیوالے سول حکمرانوں نے بھی اب تک برقرار رکھا ہوا ہے تو کسی ڈرون حملے پر احتجاج کا ہمارے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اس احتجاج سے پہلے تو ہمیں اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس کے تحت افغان جنگ میں پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنا کر امریکہ کو پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کی بھی اجازت دی گئی جبکہ یہ پالیسی آج بھی برقرار ہے۔ امریکہ کی جانب سے تو یہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں ڈرون حملوں کے ذریعے اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے جس کا مشاہدہ اور تصدیق طالبان کے ہاتھوں یرغمال ہونے اور بعدازاں بازیاب ہونیوالے افراد نے بھی کی ہے جن میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادوں کے علاوہ امریکی سابق فوجی افسر اور صحافی بھی شامل ہیں۔ چنانچہ ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کسی بھی فورم پر یہی جواز پیش کریگا کہ اس نے اپنی سلامتی کے دشمن دہشت گردوں کو ہی ڈرون حملوں میں ہدف بنایا ہے۔
بے شک انسانی حقوق کا یواین چارٹر اور دوسرے عالمی قوانین و ضوابط کسی ملک کو کسی دوسرے ملک کی آزادی و خودمختاری میں مداخلت کرنے اور اسکی جغرافیائی حدود کے اندر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دیتے تاہم ڈرون حملوں کے حوالے سے ہم نے امریکہ کیخلاف یہ کیس بنانا ہے تو پھر ہمیں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرنا ہوگا جس کے بعد کسی ڈرون حملے پر محض احتجاج ہی نہیں‘ ڈرون گرانا اور اس حملے کا جواب دینا بھی ہمارا استحقاق بن جائیگا جبکہ ہماری پوزیشن اس وقت بھی ایسی ہے کہ ہم طارق فاطمی کے بقول ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتے ہیں مگر ان کا منہ توڑ جواب دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ آج اس معاملہ میں بھی پاکستان کی بے بسی کا اظہار کررہے ہیں کہ ہمارے پاس ڈرون کا پتہ لگانے والی کوئی ٹیکنالوجی ہی موجود نہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پاک فضائیہ کے اس وقت کے سربراہ نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا تھا کہ ہمارے پاس ڈرون کا تعاقب کرکے اسے گرانے کی ٹیکنالوجی اور صلاحیت موجود ہے۔ اگر چار سال قبل ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود تھی تو اب یہ صلاحیت ہم سے کون چھین لے گیا ہے کہ طارق فاطمی کے بقول ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود ہی نہیں۔ اگر وہ اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ ڈرون حملوں سے متعلق کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشاءنہیں کیا جاسکتا تو درحقیقت وہ ڈرون حملوں سے متعلق اس معاہدے کے اب بھی برقرار ہونے کی ہی تصدیق کررہے ہیں جو مشرف اور بش کے مابین طے پایا تھا جس کا اعتراف اقتدار سے ہٹنے کے بعد خود مشرف بھی کرچکے ہیں۔
ہماری سرزمین پر 2004ءسے شروع ہونیوالے ڈرون حملوں کیخلاف ملک میں ہر سطح پر احتجاج کیا جاچکا ہے‘ دفتر خارجہ کے علاوہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبار قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرکے بھی ڈرون حملوں پر احتجاج اور یہ سلسلہ روکنے کا تقاضا کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں میں ڈرون حملوں کیخلاف متفقہ طور پر قراردادیں منظور ہوچکی ہیں اور حکومتی و اپوزیشن سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ڈرون حملوں کیخلاف قراردادیں منظور کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا جاچکا ہے جبکہ پشاور ہائیکورٹ نے دو سال قبل ڈرون حملے سے متاثر ایک شخص کی ”کووارنٹو“ رٹ درخواست منظور کرتے ہوئے حکومت کو ڈرون حملے بند کرانے‘ ان حملوں پر امریکہ کیخلاف مقدمہ درج کرنے اور حملوں میں ہونیوالے نقصان کا امریکہ سے ہرجانہ طلب کرنے کا حکم صادر کرچکی ہے۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلہ کی بنیاد پر وفاقی یا خیبر پی کے حکومت نے کیا کارروائی کی ہے۔ اس بارے میں ابھی تک کوئی چیز بھی ریکارڈ پر نہیں آئی جبکہ اسکے بعد بھی امریکہ نے ڈرون حملے برقرار رکھے ہیں تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کے متذکرہ فیصلہ کو درخوراعتناءہی نہیں سمجھا۔ اب نوشکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونیوالے ٹیکسی ڈرائیور کے بھائی کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مندرجات سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ یہ ایف آئی آر حکومت کی رضامندی اور مشاورت سے ہی درج ہوئی ہے۔ کیا حکومت اس ایف آئی آر پر پیش رفت کرتے ہوئے کسی کارروائی کا بھی ارادہ رکھتی ہے؟ اس کا اندازہ تو تبھی ہوگا جب حکومت آئندہ ملک کی سرزمین پر کوئی ڈرون حملہ نہیں ہونے دےگی۔
اب مناسب تو یہی ہے کہ پاکستان کے معاملہ میں بدلتے ہوئے امریکی تیور بھانپ کر اسکے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرلیا جائے اور ملکی سلامتی اور قومی مفادات سے ہم آہنگ قومی خارجہ پالیسی ازسرنو مرتب کی جائے جس کی بنیاد پر صرف ملکی اور قومی مفادات کو ہی مقدم رکھا جائے۔ اگر آج بھی امریکی فوجی اور اقتصادی امداد وصول کرنا ہی ہمارا مطمع¿ نظر ہے تو پھر کسی ڈرون حملے یا دوسری امریکی کارروائی پر قومی غیرت کا اظہار چہ معنی دارد؟