وہاڑی کے نواحی علاقے ساہوا میں پسند کی شادی سے دو روز قبل 2 بہنوں کو غیرت کے نام پرفائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ کوثر اور گلزار بی بی کراچی میں ملازم تھیں۔ دوسری طرف لاہور غازی آباد کی لڑکی پر سب انسپکٹر پولیس اور اہلکاروں کا تشدد، اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر ہر سال سینکڑوں خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن آج تک ایسے کیسز میں ملزمان کوقرار واقعی سزا نہیں دی جا سکی۔ ایسے کیسز میں عموماً خاندان کے افراد ہی مدعی ہوتے ہیں چند سال کے بعد لواحقین قاتل کو معاف کر دیتے ہیں یوں دیگر افراد اس سے حوصلہ پکڑ کر غیرت کے نام پر فساد فی الارض پھیلاتے ہیں۔ معاشرے میں اس قبیح روایت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ایسے کیسز میں ریاست کو مدعی بننا چاہیے تاکہ ملزم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔اسلام شادی کے معاملات میں ایک بالغ اور عاقل لڑکی کو اپنی مرضی سے جیون ساتھی منتخب کرنے کا حق دیتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی چند دن کے شور شرابے کے بعد خاموشی اختیار کر لیتی ہیں اور قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے غیرت کے نام پر قتل پر قانون سازی کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس اہم معاملے پر قانون سازی نہیں ہو سکی حکومت اس پر فی الفور قانون سازی کرے۔ استغاثہ کیس کو اس قدر مضبوط بنائے کہ ملزم کے سزا سے بچنے کے امکانات نہ رہیں تب ہی ایسے واقعات کو روکا جا سکے گا۔ آئی جی پولیس پنجاب لاہور میں پیش آنےوالے پولیس زیادتی کے واقعے کی بھی شفاف انکوائری کرائیں اور محکمہ پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کا صفایا کریں۔ ایسے افراد ہی محکمے کیلئے کلنک کا ٹیکہ ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38