امریکہ کی افغان طالبان کو کلین چٹ اور پاکستان سے بلاامتیاز اپریشن کے تقاضے
امریکہ نے افغان مشن ختم ہوتے ہی طالبان کو کلین چٹ دے دی اور انہیں دہشت گرد کے بجائے مسلح باغی قرار دے دیا۔ اس سلسلہ میں وائٹ ہائوس کے ترجمان ایرک شلز نے گزشتہ روز میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان دہشت گرد نہیں جبکہ داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ امریکہ دہشت گردوں سے رعایت نہیں کرتا۔ ترجمان کے بقول امریکہ افغان جنگ سمیٹ رہا تھا اس لئے اس تنازعہ کو بات چیت سے ختم کیا گیا اور امریکی فوجی بوبرگڈال کی رہائی کے بدلے پانچ طالبان کمانڈروں کو رہا کیا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ امریکہ دہشت گردوں کو تاوان دیتا ہے نہ ان سے کسی قسم کی رعایت کرتا ہے۔
اس امر پر یقیناً کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ امریکی پالیسیاں سراسر اسکے مفادات کے تابع ہوتی ہیں اس لئے وہ آج جس کا حلیف ہے‘ کل کو اس کا بدترین دشمن بن سکتا ہے اور وہ آج جس کے ساتھ ملکی سلامتی کے نام پر برسر پیکار ہے‘ کل کو ملکی سلامتی ہی کے نام پر وہ اس کا بہترین دوست نظر آئیگا۔ نائن الیون کے بعد تو امریکہ کو اپنی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ سمیت انسانی اور عالمی تحفظ سے متعلق کسی اصول‘ فلسفے اور قانون کی پاسداری یاد نہیں رہی۔ اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر امریکہ نے ڈرون حملوں کی پالیسی وضع کی جس کے تحت اس نے افغانستان کے علاوہ پاکستان‘ صومالیہ اور یمن پر بھی ڈرون حملوں کے ذریعے انسانی آبادیوں کا حشرنشر کرتے ہوئے بدترین جنگی جرائم کی بنیاد رکھی۔ دنیا بھر میں اس امریکی پالیسی کیخلاف احتجاج ہوا‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ تک میں امریکی ڈرون پالیسی کی تباہ کاریوں کی صدائے بازگشت سنائی دی گئی۔ ڈرون حملے بند کرانے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے امریکہ پر دبائو بھی ڈالا گیا مگر امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور پاکستان میں اب تک اسکے ڈرون حملے جاری ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکی سلامتی کے نام پر ہی عراق کو اجاڑ دیا گیا اور صدام حسین سمیت صدام حکومت کی چیدہ چیدہ شخصیات کو پھانسی پر لٹکا کر وہاں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دی گئی جسے کیمیکل ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے اپریشن کے ذریعے اپنا معاون بنا کر عراق کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیااور انسانی خون کی ندیاں بہانے کے بعد جب امریکہ وہاں سے رخصت ہونے لگا تو امریکی ماہرین کی منظرعام پر آنیوالی رپورٹ کے ذریعے دنیا دنگ رہ گئی کہ جن کیمیکل ہتھیاروں کی موجودگی کو بہانہ بنا کر عراق کو اجاڑا گیا ہے‘ ان کا پورے عراق میں کہیں نام و نشان نہیں ملا۔ حد تو یہ ہے کہ انسانی تباہی کا باعث بننے والے اس جنگی جرم پر امریکہ نے کسی ندامت کا اظہار کرنے یا معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اس کا یہی معاملہ افغانستان میں نظر آیا‘ جہاں القاعدہ اور اسکے قائد اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے کیلئے امریکہ نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد نیٹو فوجیوں کی چڑھائی کرائی اور وہاں دس گیارہ سال تک زمینی اور فضائی کارروائیوں کے ذریعے افغان دھرتی کے چپے چپے کو تورابورا بنایا جاتا رہا۔ اس وقت طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو تحفظ فراہم کرنے کے جرم کی سزا بھگتتے ہوئے امریکہ کے ہاتھوں دہشت گرد بن کر راندۂ درگاہ ہوئی اور پھر نیٹو فورسز کی مزاحمت کرنیوالے افغان طالبان بدترین دہشتگرد ٹھہرائے جاتے رہے مگر اسی دوران جہاں امریکہ کو اپنا مفاد نظر آیا انہی طالبان کے بعض گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا بھی گوارا کیا جاتا رہا۔ اسکے برعکس پاکستان کے ساتھ ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں میں اچھے برے طالبان کی اصطلاح پر ہی برافروختگی کا اظہار سامنے آتا رہا اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ امریکی تحفظات بھی اسی بنیاد پر پیدا ہوئے اور پاکستان کی بھاری جانی اور مالی قربانیوں کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے اس پر بلاامتیاز اپریشن کیلئے دبائو بڑھایا جاتا رہا۔ حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کا امریکی تقاضا اوباما کے حالیہ دورۂ بھارت کے موقع پر بھی شدومد کے ساتھ سنائی دیتا رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان خود حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کیخلاف بے لاگ اپریشن کیلئے پرعزم ہے بلکہ افواج پاکستان اس کیلئے سرگرم عمل بھی ہیں۔
اب جبکہ نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے پاک امریکہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے کی رو سے اپنے ملک میں ہی نہیں‘ افغانستان میں بھی طالبان کے ٹھکانوں کی معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کیخلاف جاری اپریشن کو سرخروئی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے تو اب امریکہ کے نزدیک افغان طالبان سرے سے دہشت گرد ہی نہیں رہے۔ یہی وہ انتہاء پسند عناصر ہیں جو پہلے سابق سوویت یونین کیخلاف سرد جنگ کے دوران افغان مجاہدین کی شکل میں امریکہ کے دوست اور معاون کار تھے اور اسی تناظر میں اسامہ بن لادن کو بھی امریکی سرپرستی حاصل رہی مگر یہی انتہاء پسند عناصر نائن الیون کے بعد امریکہ کیلئے دہشت گرد بن گئے جن کی سرکوبی کیلئے اس نے نیٹو فورسز کی معاونت سے اس پورے خطہ کو آگ و آہن کے جنونی اور خونی کھیل کا شکار بنادیا۔ اب جبکہ پاکستان طالبان سمیت تمام دہشت گردوں کی سرکوبی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے تو افغان طالبان کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ مل گیا ہے جس کے بعد ملاعمر بھی کسی محفوظ ٹھکانے میں محفوظ رہے گا اور ملا فضل اللہ بھی افغانستان میں امریکی آشیرباد سے پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے نئے منصوبوں کو پروان چڑھانے میں آزاد ہو گا جبکہ ہم نے فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے امریکی سلامتی کا تحفظ کرتے کرتے اپنی سلامتی کو بھی دائو پر لگا دیا ہے۔
بے شک ذاتی مفادات پر مبنی امریکی خارجہ پالیسی پر سابق امریکی جرنیل بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں اور امریکی سینٹ کی دفاعی کمیٹی کے روبرو بیان قلمبند کراتے ہوئے جنرل جیمز مارٹن‘ جنرل جان مکین اور جنرل ولیم فولن نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کسی اور کی سلامتی کو پیش نظر نہ رکھنے والی خارجہ پالیسی کے باعث امریکہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں جنگ ہار سکتا ہے کیونکہ اس پالیسی کے حوالے سے ہمارے اتحادی مخمصے کا شکار ہیں۔ ان سابق امریکی جرنیلوں کے اس مشورے کے باوجود کہ امریکہ کو افغانستان میں 2016ء تک اپنی افواج برقرار رکھنی چاہئیں اور یہ کہ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دیا جائے‘ امریکہ‘ دہشت گردی کی جنگ میں سرزد ہونیوالی غلطیوں سے سبق حاصل کرتا بھی نظر نہیں آرہا اور اپنے اتحادیوں کا ساتھ چھوٹنے کے امکانات بھی اسے جھنجوڑنے کا باعث نہیں بن رہے جبکہ پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بننے کا صلہ وہ بھارت کو اپنا علاقائی اتحادی بنا کر دے رہا ہے جس کے ہاتھوں پاکستان کی سلامتی کو پہلے ہی سخت خطرات لاحق ہیں۔
یہ صورتحال یقیناً ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحۂ فکریہ اور اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کی قومی خارجہ پالیسی بھی ملک کے بہترین مفادات اور سلامتی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر وضع کی جائے اور دہشت گردی کی جنگ میں ہر حکمت عملی سراسر قومی مفادات کو سامنے رکھ کر طے کی جائے۔ یقیناً علاقائی اور عالمی تعلقات میں بھی ملکی اور قومی مفادات کو ہی فوکس کیا جانا چاہیے کیونکہ ہمیں بھی اپنی سلامتی اتنی ہی عزیز ہے جتنی امریکہ یا کسی اور کو اپنی سلامتی عزیز ہو سکتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38