پاکستانی ہائی کمشنر کو بھارتی راشٹریہ بھون کی تقریب میں شرکت سے روکنے اور نئی دہلی صنعتی نمائش میں پاکستانی سٹال اکھاڑنے کی جنونیت
مودی سرکار دشمنی بڑھانا چاہتی ہے تو ہمارے حکمران بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں
بھارت میں سفارتی آداب کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) میں ہونیوالی ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ہائی کمشنر نے اس سلسلہ میں بتایا کہ متذکرہ تقریب میں شرکت کیلئے انہیں دس روز قبل دعوت نامہ بھجوایا گیا تھا اور پھر یاد دہانی بھی کی گئی کہ آپ نے اس تقریب میں شرکت کیلئے راشٹرپتی بھون آنا ہے مگر گزشتہ روز انہیں ٹیلی فون کرکے بتایا گیا کہ ان کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا ہے اس لئے وہ اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے۔ انکے بقول دعوت نامہ کی منسوخی پر ان سے معذرت بھی نہیں کی گئی۔ تقریب کے منتظمین کی جانب سے عبدالباسط کو تقریب میں شمولیت سے روکنے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ چونکہ یہ تقریب راشٹرپتی بھون میں منعقد ہو رہی ہے جس میں بھارتی صدر پرناب مکھرجی مہمان خصوصی ہیں چنانچہ اس تقریب میں پاکستانی ہائی کمشنر اور دوسرے سفیروں کو مدعو کرنے کیلئے دفتر خارجہ سے اجازت لینا ضروری تھا جو نہیں لی جا سکی اس لئے پاکستانی ہائی کمشنر سمیت دوسرے سفیروں کو جاری کئے گئے دعوت نامے بھی منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔
پاکستانی شخصیات کے بارے میں سفارتی ادب آداب کو جوتی کی نوک پر رکھنے کا وطیرہ انتہاء پسند بی جے پی کی مودی سرکار نے اپنے اقتدار کے پہلے روز ہی اختیار کرلیا تھا جب نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کیلئے خود نئی دہلی مدعو کیا اور حلف اٹھانے کے اگلے روز باضابطہ ون آن ون ملاقات میں خیرسگالی کے جذبات کے اظہار کے بجائے ان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کردی اور اس سے پہلے کہ وزیراعظم پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے باضابطہ مذاکرات کی بات کرتے‘ انہیں ممبئی حملوں کے حوالے سے الزامات اور تقاضوں کی فہرست تھما کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی حکومت کی پالیسیوں کی جھلک بھی دکھا دی چنانچہ مودی سرکار آج کے دن تک اپنی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت پاکستان کے ساتھ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے خیرسگالی کے دوستانہ تعلقات کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا جبکہ کنٹرول لائن پر آئے روز کی یکطرفہ گولہ باری اور فائرنگ کے ذریعے پاکستان کے ساتھ جنگ کا ماحول بنائے رکھنا اور بھارت کے اندر بھی پاکستان دشمنی کو فروغ دینا اب مودی حکومت کی بنیادی پالیسیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہندو جنونیت میں ہذیانی کیفیت کا شکار مودی سرکار کو آج اقوام متحدہ کا وہ چارٹر بھی یاد نہیں جس کی بنیاد پر اسکے رکن ممالک کو باہمی تنازعات کے حل کیلئے ایک دوسرے کیخلاف مسلح چڑھائی (جنگ) سے گریز کا پابند کیا گیا جبکہ 1972ء میں طے پانے والے شملہ معاہدہ میں اسی یواین چارٹر کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک 71ء کی جنگ کے بعد قائم ہونیوالی کنٹرول لائن کا احترام کرینگے اور وہاں سے اپنی اپنی افواج واپس بلوا کر قیام امن کو یقینی بنائیں گے اور پھر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات حل کرینگے۔ مودی سرکار کنٹرول لائن پر اپنی جارحانہ کارروائیوں کے ذریعے کشیدگی بڑھا کر اور بھارت کے اندر بھی پاکستان دشمنی پر مبنی ماحول کو گرما کر شملہ معاہدے کی دھجیاں بھی اپنے ہاتھوں بکھیر رہی ہے جبکہ اس وقت بھارت میں کوئی اقلیت بھی مودی سرکار کے شر سے محفوظ نہیں۔ مسلمان تو بطور خاص بی جے پی حکومت کی پالیسیوں میں مشق ستم ہیں کیونکہ بھارت کی حکمرانی آج بی جے پی کے اس انتہاء پسند لیڈر کے ہاتھ میں ہے جو وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت سے اپنی ریاست میں ہونیوالے مسلم کش فسادات کی خود سرپرستی کرتے رہے جبکہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تو انہوں نے 1971ء کی جنگ کے دوران بھارتی پروردہ مکتی باہنی کی پاکستان توڑنے کی تحریک میں حصہ لینے کا بھی فخریہ اعتراف کیا جس سے انکی سرشت میں موجود پاکستان دشمنی کے حوالے سے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ اپنی اس سرشت کے باعث ہی انہوں نے پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر اپنا انگوٹھا مضبوط کرنے اور اس پر اپنا جبری تسلط جائز بنانے کیلئے بھارتی آئین میں ترمیم کرائی اور ہندو پنڈتوں کو مقبوضہ کشمیر میں متروکہ وقف املاک خریدنے کا حق دے دیا جس کا واحد مقصد ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے تقسیم ہند کا فارمولا اس ریاست پر لاگو نہ ہونے دینے کا ہے۔ اسی طرح مسلم‘ سکھ اور عیسائی اقلیتوں کو جبری ہندو بنانے کا سلسلہ بھی بی جے پی کی ہندو انتہاء پسندی کا شاہکار ہے جس میں اصل ہدف مسلمان ہی ہیں جن کیخلاف گائے ذبح کرنے کے ایشو پر بھی اشتعال انگیز جذبات کو ابھارا گیا اور گائے کا گوشت رکھنے اور کھانے کے محض شبہ میں متعدد مسلمان بھارتی باشندوں کو ذبح کردیا گیا ۔ صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا‘ پاکستان کیخلاف مودی سرکار کی منتقمانہ پالیسی کے تحت بھارت میں مدعو ہونیوالے پاکستانی دانشوروں‘ کھلاڑیوں‘ فنکاروں اور تاجروں تک کی ایذا رسانی اور انہیں رسوا کرکے بھارت سے واپس جانے کیلئے مجبور کرنا بھی حکمران بی جے پی نے اپنا شعار بنالیا جس کیلئے ہندو انتہاء پسند اور دہشت گرد تنظیموں شیوسینا اور آر ایس ایس کو آلۂ کار بنایا گیا جن کے غنڈوں نے پاکستان کے کلاسیک گائیک غلام علی کی توہین کرکے بھارت میں ان کا کنسرٹ منسوخ کردیا۔ پھر سابق وزیر خارجہ پاکستان میاں خورشید محمود قصوری پر چڑھائی کرکے دہلی میں انکی کتاب کی تقریب رونمائی کو جبراً رکوانے کی کوشش کی گئی اور انکے میزبان بھارتی دانشور کلکرنی کا منہ کالا کر دیا گیا جبکہ یہ جنونیت بڑھتے بڑھتے پاکستان بھارت کرکٹ کی بحالی کیلئے ممبئی جانیوالے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہریار خان اور نجم سیٹھی کے گھیرائو اور انکے ساتھ اہانت آمیز سلوک تک آپہنچی۔ اس بڑھتی ہوئی ہندو جنونیت سے بھارتی باشندوں کو پاکستان بھارت جنگ کی فضا پیدا ہوتی نظر آئی تو انکے نمائندہ حلقوں اور شخصیات کی جانب سے مودی سرکار کیخلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیاگیا جس میں قومی اعزازات کی واپسی سمیت احتجاج کے مختلف طریقے اختیار کئے گئے تو مودی سرکار کی سرپرستی میں شیوسینا اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے اپنی ان بھارتی شخصیات کا ناطقہ بھی تنگ کردیا۔ بھارتی مسلمان فنکار شاہ رخ خان‘ سلمان خان‘ عامرخان اور لیجنڈ دلیپ کمار بھی ہندو جنونیت کی لپیٹ میں آنے سے نہیں بچ سکے جن کیخلاف ہذیانی کیفیت کے مظاہرے جاری ہیں جبکہ عامرخان کو تو انکے اہل خانہ سمیت پاکستان دھکیلنے کے جبری اقدامات اٹھائے جاتے نظر آرہے ہیں اور پھر گزشتہ روز ہندو جنونیت کی انتہاء کرتے ہوئے نئی دہلی کی صنعتی نمائش میں سٹال لگانے والے پاکستانی تاجروں کے سٹال بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر الٹا دیئے گئے اور انہیں نمائش میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔
پاکستان دشمنی کو بڑھانے والے یہ سارے ہتھکنڈے درحقیقت پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا کیلئے بھی ایک پیغام ہے کہ بی جے پی سرکار ایک پرامن پڑوسی ملک کی حیثیت سے پاکستان کو برداشت کرنے کو قطعاً تیار نہیں اور اسکی سلامتی پر حملہ آور ہو کر وہ سابق بھارتی حکمران کانگرس آئی پر پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہتی ہے جبکہ اسکی جنونیت سے اس خطے کے عوام اور اقوام عالم کو کتنا بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس سے بھی بی جے پی سرکار کو کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ خود بھارتی لیڈران‘ سابق جرنیل اور سابق پولیس حکام چیخ و پکار کررہے ہیں کہ مودی سرکار کی جنونی پالیسیاں اس خطے کا امن غارت کر دینگی مگر بی جے پی کی سرپرستی میں پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف جنونیت ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ عامرخان کیخلاف جنونیت پر تو راہول گاندھی بھی چیخ اٹھے ہیں جبکہ گزشتہ روز سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ نے بھی کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے مودی سرکار کو باور کرایا ہے کہ آزاد کشمیر پاکستان میں ہے اور وہیں رہے گا۔ اسی طرح گزشتہ روز بھارتی ریاست مہاراشٹر کے سابق آئی جی پولیس ایس ایم مشرف نے یہ انکشاف کرکے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے کہ حکمران بی جے پی کی ہم نظریاتی انتہاء پسند تنظیم راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آرایس ایس) بھارت کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کے کارکن دہشت گردی کے 13 واقعات میں مجرم قرار پائے ہیں جنہوں نے دھماکہ خیز مواد استعمال کیا تھا۔ اسی طرح بھارتی اعلیٰ ایوارڈ واپس کرنیوالے شاعر اشوک واجپائی نے بھارتی صدرمکھرجی کو ایک مراسلہ میں باور کرایا ہے کہ انتہاء پسند آر ایس ایس سے اسلام کو نہیں‘ خود ہندو مذہب کو خطرہ ہے۔
مودی سرکار کی سرپرستی میں پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف فروغ دی گئی منافرت کی اس فضا میں پاکستان بھارت مذاکرات کے دروازے تو عملاً بند ہوچکے ہیں جس کا خود مودی سرکار نے اہتمام کیا ہے اس لئے اس صورتحال میں ہمارے حکمرانوں کو بھارت سے مذاکرات کی ہرگز توقع نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی کسی مالی مفاد کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ کرکٹ کی بحالی کا سوچنا چاہیے کیونکہ بھارت اس میں ہرگز مخلص نہیں ہے اور اسکی جانب سے پینترا بدلتے ہوئے اب سری لنکا میں بھی پاکستان بھارت کرکٹ سیریز کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کو دولت مشترکہ کانفرنس کی صورت میں بھارتی جنونیت کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنے کا ایک اچھا موقع ملا تھا مگر وہ اس فورم پر بھی بھارت سے غیرمشروط مذاکرات کی خواہش کا ہی اظہار کرتے رہے جبکہ مودی وہاں ان سے غیررسمی ملاقات کے بھی روادار نہیں ہوئے۔ اس تناظر میں تو بھارتی جنونیت کا علاج اسکے ساتھ میٹھی زبان میں غیرمشروط مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرنا اور کرکٹ کی بحالی کی یکطرفہ کوششیں برائے کار لانا نہیں بلکہ اسکے رویوں کا اسی کے لہجے میں جواب دینا ہے اس لئے حکومت کو بھارت کے معاملہ میں اب قومی غیرت و حمیت کو بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہیے۔