پاکستان میں متعین ایرانی سفیر مہدی ہنردوست نے کہا ہے کہ گوادر اور چاہ بہار حریف نہیں، دوست بندرگاہیں ہوں گی۔ چاہ بہار معاہدہ ایران، بھارت اور افغانستان تک محدود نہیں پاکستان اور چین بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے مابین اقتصادی راہداری منصوبے پر سب سے پہلے بھارت نے اعتراض کرتے ہوئے چین کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے پاک چین اقتصادی راہداری پر احتجاج ریکارڈ کرایا، بعدازاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دورہ چین کے دوران چینی صدر کے سامنے بھی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جسے چینی قیادت نے مسترد کر دیا۔ ہر طرف سے ناکامی کے بعد بھارت نے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپنی خفیہ ایجنسی (را) کا کروڑوں ڈالر بجٹ کا سپیشل ڈیسک قائم کیا جس نے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں، خیبر پی کے میں اپنے ایجنٹوں اور سندھ کے قوم پرست وڈیروں کے ذریعے اس منصوبے کو متنازع بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ بھارتی پیسے پر پلنے والے سیاستدانوں نے مغربی روٹ کو آڑ بنا کر اس عظیم منصوبے کے راستے میں روڑے اٹکانے کی بھرپور کوشش کی جسے محب وطن سیاسی قیادت نے ناکام بنا دیا۔ ہر طرف سے منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ پر 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا ایران سے معاہدہ کیا ہے۔ بھارت کی ان سازشوں کے بعد ایرانی سفیر کی دونوں بندر گاہوں کے دوست ہونے کی بات کوئی طلسماتی کہانی نظر آتی ہے۔ کلبھوشن کی طرح کئی بھارتی جاسوس ایران کے راستے بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ برادر ملک ہونے کے ناطے ایران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024