امریکہ کے بھارتی زبان میں پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے۔ ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ والی بلی تھیلے سے باہر آگئی
بھارتی انتہاء پسند وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر ٹرمپ اور مودی کی شکل میں پاکستان اور دین اسلام کیخلاف ہنود و یہود کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ گزشتہ روز امریکہ اور بھارت کی قیادتوں کی جانب سے پاکستان پر ایک بار پھر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونے دینے کو یقینی بنائے۔ اس سلسلہ میں وائٹ ہائوس کی جانب سے ٹرمپ‘ مودی ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ بھارت نے امریکہ کی جانب سے کشمیری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔ مشترکہ بیان میں ٹرمپ اور مودی نے اس بارے میں بھی اپنی ذہنی ہم آہنگی کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں مبینہ طور پر سرگرم جیش محمد اور لشکر طیبہ سمیت شدت پسند تنظیموں کے لاحق خطرات کیخلاف باہمی تعاون میں اضافہ کرینگے۔ وائٹ ہائوس کے جاری کردہ بیان کے ذریعے ٹرمپ اور مودی نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ 2008ء کے ممبئی حملوں اور 2016ء کے پٹھانکوٹ حملے کے ملزمان کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لاکر سزا دے۔ بھارت ان حملوں کا لشکر طیبہ اور جیش محمد کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا رہا ہے اور پاکستان پر ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام بھی لگاتا رہا ہے جسے پاکستان کئی بار سختی سے مسترد کرچکا ہے جبکہ اب ٹرمپ‘ مودی ملاقات کے موقع پر ان الزامات کا اعادہ کیا گیا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نے مودی سے ملاقات کے بعد یہ بیان دے کر ہنود و یہود گٹھ جوڑ کو مزید اجاگر کیا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات پہلے کبھی اتنے مضبوط نہیں رہے جتنے آج ہیں۔
وائٹ ہائوس میں ہونیوالی اس ملاقات کے موقع پر ٹرمپ نے مودی کو سچا دوست کہہ کر مخاطب کیا اور مسلمانوں کیخلاف زہر اگلتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ مل کر دنیا سے اسلامی انتہاء پسندوں کا خاتمہ کرینگے۔ ذرائع کے مطابق نریندر مودی اس حوالے سے ایک آفس ملازم کی طرح ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے‘ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل نریندر مودی نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں اپنے مضمون میں دعویٰ کیا کہ بھارت اور امریکہ مشترکہ طور پر پیداوار اور جدت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ٹرمپ درحقیقت اپنے اس 20 نکاتی منشور پر ہی عمل پیرا ہیں جس کی بنیاد پر انہوں نے صدارتی انتخاب لڑا اور دہشت گردی کا سارا ملبہ دین اسلام اور مسلمانوں پر ڈال کر وہ ہنود و یہود کے ترجمان بن کر اپنے ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرتے رہے۔ بطور صدر امریکہ حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں ہی اسلامی انتہاء پسندی کا لفظ استعمال کرکے ہر قسم کی دہشت گردی کا تعلق دین اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جبکہ اب مودی سے ملاقات کے وقت بھی وہ اپنی اسی سوچ پر کاربند نظر آتے ہیں تو اس سے پاکستان کی سالمیت کے درپے اور کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ اختیار کرنیوالی بھارت کی جنونی مودی سرکار کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہونگے۔ امریکہ کے سابقہ دور میں بھی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بے مثال قربانیاں دینے والے پاکستان کے مقابل بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیا جاتارہا ہے جبکہ پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں کی انتہاء بھی کی گئی اور ڈرون حملوں کے ذریعے اسکی آزادی اور خودمختاری کو بھی چیلنج کیا جاتا رہا۔ اب ٹرمپ اپنے انتخابی منشور کے عین مطابق پاکستان کا ناطقہ تنگ کرنے کی پالیسی پر گامزن نظر آتے ہیں جو پاکستان کی سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی گرانٹ کو قرض میں تبدیل کرنے کی قرارداد بھی امریکی کانگرس میں لاچکے ہیں اور پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کا بل بھی امریکی ارکان کانگرس کی جانب سے کانگرس میں پیش کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ آج مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر ٹرمپ انتظامیہ بھارت کیلئے ریشہ خطمی نظر آتی ہے اور پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کا اعلانیہ اور فخریہ اظہار کیا جارہا ہے تو تھیلے سے باہر آئی اس بلی کو مزید دودھ پلانے کی اب کیا ضرورت ہے۔
اس صورتحال میں اگر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ٹرمپ ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں جس کی وہ وزیراعظم نوازشریف سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران خواہش کا اظہار بھی کرچکے ہیں تو لازمی طور پر وہ بھارت کے حق میں ڈنڈی ہی ماریں گے۔ بھارت تو پہلے ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بزور کچلنے کیلئے تلا بیٹھا ہے جس نے گزشتہ سال سے کشمیری عوام کا ناطقہ تنگ کر رکھا ہے اور اب تک سینکڑوں کشمیریوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا چکا ہے‘ ان میں اکثریت نوجوان کشمیریوں کی ہے جو اپنے بزرگوں کی جلائی گئی شمعٔ آزادی کی لو مدھم نہ ہونے دینے کی خاطر جدوجہد آزادی میں ظالم بھارتی فوجیوں کے آگے سینہ سپر ہو کر اپنی جانیں نچھاور کرتے رہے جبکہ کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں راسخ ہونیوالی آزادی کی تڑپ نے انکے پائے استقلال میں کبھی ہلکی سی لغزش بھی پیدا نہیں ہونے دی۔
اگر ٹرمپ بھارتی وزیراعظم مودی سے ملاقات کے وقت کشمیری مجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے کر مودی کی خوشی کا اہتمام کررہے ہیں تو درحقیقت وہ پاکستان اور اسلام مخالف اپنی پالیسیوں کا ہی اظہار کررہے ہیں۔ چنانچہ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان ہی نہیں‘ صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خاں نے بھی اس پر فوری اور بھرپور ردعمل کا اظہار کرکے ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ سے اس خطہ کی سلامتی کیلئے پیدا ہونیوالے خطرات سے دنیا کو آگاہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کی جانب سے بجا طور پر باور کرایا گیا کہ کشمیر کے مظلوم عوام گزشتہ 70 سال سے بھارت سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں جبکہ بھارت نے ان پر مظالم کی انتہاء کرتے ہوئے گزشتہ ایک سال کے دوران ہزاروں معصوم اور بے گناہ کشمیریوں کو بینائی سے محروم کیا ہے اور سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ یہ بھارتی مظالم انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خاں نے بھی گزشتہ روز اسی تناظر میں باور کرایا کہ ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ ثابت ہوگا۔ انکے بقول امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا ہے جبکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کی قربانیوں کا امریکہ نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔ انہوں نے بجا طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ امریکہ کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی کے بھارتی اقدامات کو نظرانداز کرکے آزادی پسندوں کو دہشت گرد قرار دینا کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے بھی امریکی انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ وہ بھارتی زبان بولنے لگی ہے اور بھارتی وزیراعظم کی وائٹ ہائوس یاترا کے بعد پاکستان کیلئے امریکی بیان سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ امریکہ کے نزدیک معصوم کشمیریوں کے خون کی کوئی وقعت نہیں جبکہ اس سے انسانی اور جمہوری حقوق کی علمبردار طاقتوںکے دہرے معیار کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول پاکستان کشمیری عوام کے حقوق پر بے شک کوئی سودے بازی نہیں کریگا اور کشمیریوں کی جدوجہد یواین قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنے تک بے شک جاری رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس حق سے محروم نہیں کر سکتی تاہم ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کے اعلانیہ اظہار کے بعد کیا اب ہمارے لئے اپنی قومی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل کرنا اور اسے ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور بھی ضروری نہیں ہوگیا۔ اگر آج انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بھی امریکہ کو باور کرایا جارہا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے مجاہد صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے تو ہمیں اس خطہ کیلئے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے ممکنہ مضر اثرات کی جانب عالمی قیادتوں اور اداروں کو متوجہ کرنے کیلئے سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ آج کشمیری عوام تو اپنی بے مثال جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے دنیا کی سوچ کو اپنے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ کرچکے ہیں۔ اگر ہماری جانب سے بھی عملاً کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا دنیا کو ٹھوس پیغام ملے گا تو اس سے کشمیریوں کیلئے عالمی اداروں اور قیادتوں کی جانب سے اٹھنے والی آوازیں مزید توانا ہونگی اور ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ بھی انکی جدوجہد آزادی کے راستے کا کانٹا نہیں بن سکے گا۔ ہمیں اس وقت صرف اپنی قومی خارجہ پالیسیوں کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے آج ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ نے نادر موقع فراہم کردیا ہے۔