سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر کا اندراج، وزیراعظم کی پھر آرمی چیف سے ملاقات اور عمران و قادری کا استعفوں پر اصرار
پنجاب حکومت کی ہدایت پر لاہور پولیس نے ادارہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون لاہور کے سانحہ کا سیشن کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے احکام کی روشنی میں مقدمہ درج کر لیا ہے جس میں وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی و صوبائی وزراء سمیت 21 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کی دوپہر وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف اور پرویز رشید کی پریس کانفرنس کے بعد پنجاب حکومت نے آئی جی پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا کو سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی جس پر تھانہ فیصل ٹائون میں ادارہ منہاج القرآن کی اندراجِ مقدمہ کی درخواست کے مطابق ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق یہ ایف آئی آر مسلم لیگ (ن) کے وکلا اور پولیس افسران کی موجودگی میں درج کی گئی اور پھر اسے سربمہر کر دیا گیا۔ قبل ازیں وفاقی وزراء نے پریس بریفنگ پر ڈاکٹر طاہر القادری سے بدھ کی شب ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے ڈاکٹر طاہر القادری کو دھرنا ختم کرنے کے عوض سانحہ ماڈل ٹائون کے مقدمہ میں وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزراء سمیت دیگر متعلقہ عہدے داران کو نامزد کرنے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق بھی استعمال نہیں کرے گی اس کے باوجود طاہر القادری وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفیٰ پر بضد رہے۔ وہ بتائیں کہ یہاں کونسی جنگ ہو رہی ہے کہ وہ لوگوں کو شہادت کی راہ دکھا رہے ہیں۔ جمعرات کی سہ پہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے استعفیٰ پر اصرار کیا اور کہا کہ آج فائنل میچ ہے، ہم استعفے کے بغیر یہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔
شاہراہ دستور اسلام آباد پر گذشتہ 15 روز سے جاری تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں سے ملک کے ہر مکتبہ زندگی کے لوگ تو پریشان تھے ہی، اب بیرونی دنیا میں بھی احتجاجی تحریک کے اس انداز پر پریشانی کا اظہار سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پہلے ہی عمران اور قادری کے غیر آئینی تقاضوں پر تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے جبکہ گذشتہ روز چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے بھی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے موقع پر پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور اس امر پر زور دیا کہ فریقین باہم بات چیت سے اپنے مسائل حل کریں۔ حکومت تو دھرنے ختم کرانے کی خاطر انتخابی اصلاحات، انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات اور سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرنے سمیت عمران اور قادری کے تقریباً تمام تقاضے پورے کرنے پر رضامند ہو چکی ہے۔ عمران خان کو بالواسطہ نائب وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش بھی کر چکی ہے اور اب ادارہ منہاج القرآن کی درخواست کے عین مطابق سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے جس کے بعد عمران اور قادری کی دھرنا سیاست کو برقرار رکھنے کا بادی النظر میں کوئی جواز نظر نہیں آتا مگر یہ دونوں حضرات کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت سانحہ ماڈل پر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی گردنیں پھنسوانے اور انہیں اقتدار سے دھکیل کر باہر نکلوانے پر ہی مُصر ہیں جس سے ان کی جانب سے کسی تعمیری سیاست کے بجائے کسی مخصوص ایجنڈا کی تکمیل کیلئے تخریبی، خونیں سیاست کی راہ ہموار کرنے کا واضح عندیہ مل رہا ہے اور اس شبہ کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ وہ کسی مقتدر قوت کی شہہ پر شریف برادران سے خلاصی کیلئے ملک و قوم کو افراتفری اور خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کے درپے ہیں جس میں ایک میڈیا گروپ بھی ان کی بھرپور معاونت کر رہا ہے، یقیناً اسی پس منظر میں گذشتہ روز وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی گذشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران یہ کہنا پڑا کہ یہ سیاسی ہلچل کیوں اور کیسے شروع ہوئی وہ وقت آنے پر اس معاملے سے پردہ اٹھائیں گے۔ اسی طرح گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی شاہراہ دستور کی ایک لین کو دھرنا بازوں سے ہر صورت خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے باور کرایا کہ اس وقت آئین اور جمہوریت کو خطرہ لاحق نظر آ رہا ہے۔ فاضل جج عدالتِ عظمیٰ کے یہ ریمارکس بھی معنی خیز ہیں کہ چار بار ہڈیوں کے ڈاکٹر دماغ کی سرجری کر چکے ہیں، اب انہیں سرجری سے روکنا ہے۔ گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی نے بھی اپنی تقاریر میں اسی تناظر میں باور کرایا کہ دھرنے غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ ہیں جبکہ تیسری قوت کی بات کرنا آئین سے غداری کے مترادف ہے۔
ہمارے لئے یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں کہ ماضی کی چار جرنیلی آمریتوں کی ڈسی ہوئی اس مملکتِ خداداد پر پھر کسی ماورائے آئین اقدام کے منحوس سائے منڈلاتے نظر آ رہے ہیں جس میں یقیناً حکمرانوں کی اپنی بے تدبیریوں اور شاہانہ انداز کے طرزِ حکمرانی کا بھی عمل دخل ہو گا مگر اب حکمران طوعاً و کرہاً اپنی بے ضابطگیوں کو درست کرنے کی راہ پر آ رہے ہیں اور سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر کے اندراج میں کی گئی تاخیر کی غلطی کے ازالہ کیلئے خود کو ایف آئی آر میں نامزد بھی کرا چکے ہیں، اس کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری کی جانب سے شریف برادران کے استعفوں پر ہی اصرار کیا جا رہا ہے تو اس سے سیدھی سیدھی یہی مُراد ہے کہ وہ ہر صورت موجودہ منتخب حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں جو ان قوتوں کا ہی ایجنڈہ ہو سکتا ہے جو اپنے ان مقاصد کی تکمیل کی خاطر عمران اور قادری کو تعمیری سیاست کی جانب نہیں آنے دے رہیں۔ اگر پنجاب حکومت سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر وقوعہ کے روز ہی متاثر فریق کی درخواست کے مطابق درج کر لیتی تو حالات یقیناً اس نہج تک نہ پہنچتے جبکہ حکومت اپنی اس ایک غلطی پر دفاعی پوزیشن پر آتے آتے اتنی کمزور نظر آ رہی ہے کہ وہ عمران و قادری کی دھرنا سیاست کے آگے عملاً بے بس ہو چکی ہے اور جمہوریت کے خلاف کسی ماورائے آئین اقدام کے تاثر کو ختم کرنے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے علاوہ خود وزیراعظم نواز شریف کو بار بار آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرنا پڑ رہی ہے۔ جمعرات کے روز بھی وزیراعظم ہائوس میں ان کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی جس سے عسکری ادارے کے منتخب سول حکمرانی پر غالب ہونے کا تاثر مزید پختہ ہوا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام پارلیمانی قائدین اور ارکان پارلیمنٹ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تحفظ کیلئے یکسو ہیں جس کا قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران روزانہ اظہار کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود جمہوریت خطرات میں گھری نظر آتی ہے اور حکومت اتنی بے بس ہے کہ وہ شاہراہ دستور کو دھرنا بازوں سے خالی کرانے کیلئے سپریم کورٹ کے احکام کی تعمیل کی بھی پوزیشن میں نہیں اور جیسے ہی حکومت کی جانب سے انتظامی مشینری کے ذریعے شاہراہ دستور پر دھرنے والوں کے خلاف کسی ایکشن کا عندیہ ملتا ہے عین اسی وقت انہیں مقتدر حلقوں کی جانب سے طاقت استعمال نہ کرنے کا پیغام مل جاتا ہے جس سے دھرنے والوں کے حوصلے مزید بلند ہو جاتے ہیں اور عمران و قادری حکمرانوں کا تمسخر اُڑاتے اپنی ہٹ دھرمی پر کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ روز بھی آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو یہی پیغام دیا گیا کہ دھرنے کے شرکاء پر طاقت کا استعمال آخری آپشن بھی نہیں ہونا چاہئے۔ یہ صورتحال تو حکمرانوں کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں اقتدار کے ایوانوں میں مفلوج بنا دینے والی نظر آتی ہے اور بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایسے حالات پیدا کرنے کیلئے ہی عمران خان اور طاہر القادری کے سیاسی غباروں میں ہَوا بھری جاتی رہی ہے۔ اگر پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ و دفاع کیلئے پوری پارلیمنٹ، عدلیہ اور ہر مکتبہ زندگی کے یکسو اور باہم متحد ہونے کے باوجود سسٹم کو کوئی گزند پہنچتی ہے تو ملک و قوم کیلئے اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں ہو گا۔ ملک کو فوجی آمریتیوں نے پہلے ہی جتنے جھٹکے لگائے ہیں اور ملک کے دولخت ہونے کی نوبت تک پہنچایا ہے اس کے پیش نظر وطنِ عزیز کیا کسی نئی مہم جوئی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس وقت جبکہ ہمارا مکار دشمن مستعد ہو کر تاک میں بیٹھا ہے اور ہماری کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں جانے دے رہا، اسے سسٹم کی کمزوری کا پیغام دے کر، کیا اسے وطنِ عزیز کی سالمیت پارہ پارہ کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے؟ اس منفی اور فسادی سیاست سے عمران اور طاہر القادری کے شاید اپنے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا اور وہ اپنی مستقبل کی سیاست کی راہیں بھی مسدود کر بیٹھیں گے جبکہ ملک کی سالمیت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی بھی ممکن نہیں رہے گی۔ قوم ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اپنی منفی سیاست کے ذریعے اس ملکِ خداداد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے پر کیوں تُلے بیٹھے ہیں اور ملک کو دوبارہ کیوں سرزمینِ بے آئین کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024