30 نومبر کے جلسے کے پیش نظر پنجاب میں پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنوں اور عہدے داروں کے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کردیئے ہیں۔ لاہور سے ہمارے نامہ نگار کے مطابق پی ٹی آئی کے جلسے میں ممکنہ طور پر شرکت کرنیوالے کارکنوں اور رہنمائوں کی گرفتاری کے علاوہ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کیلئے لسٹیں متعلقہ تھانوں اور ٹریفک پولیس کو بھجوا دی گئی ہیں۔ کئی ارکان کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے تحریک انصاف کی خواتین کارکنوں کو بھی حراست میں لئے جانے کا امکان ہے۔ پولیس کو ٹاسک دیا گیا ہے وہ کارکنوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کریں تاکہ کارکن جلسے میں شامل نہ ہوسکیں، نہ مانیں تو انکے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کریں اور گرفتار کرکے جیلوں میں بھجوائیں۔ ان احکامات پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ قانون کی کسی بھی خلاف ورزی پر سختی سے نمٹیں گے۔ دوسری طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ 30 نومبر کو کارکنوں پر تشدد ہوا تو لوگ ایران کی طرح حکمرانوں کو الٹا لٹکا دینگے۔ حکومت نے یہ کیسے تصور کر لیا کہ 30 نومبر کو پی ٹی آئی کے کارکن متشدد ہونگے جسکے باعث آج سے ہی ان کوہراساں کرنیکا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پر امن احتجاج ہر شہری اور پارٹی کا حق ہے جو آج کے حکمران بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جلسہ کرنا چاہتی ہے تو اسکی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئیے۔ اگر شرکاء تشدد پر اتر آتے ہیں تو ان کو ایسا کرنے سے روکنے کیلئے مناسب اقدامات کا بندوبست ضرور کیا جانا چاہئیے۔ حکومت اور تحریک انصاف ایک دوسرے کو اپنا دشمن نہ سمجھیں ایسی سوچ سے سیاست میں انتشار اور خلفشار پیدا ہو سکتا ہے جو جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہو گا۔ 30 نومبر جلسے کے حوالے سے فریقین برداشت، صبر اور تحمل سے کام لیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024