افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان سے بھاگ کر افغانستان آنیوالے طالبان کیساتھ کوئی رعائت نہیں ہو گی۔ انکے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔ ہم انہیں کچل دینگے۔ گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اپنے ملک میں کوئی تخریبی سرگرمی برداشت نہیں کریگی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ قومی مفاہمت کے تحت طالبان کو درست راستے پر لے آئینگے۔
افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے ہمارے سابق جرنیلی آمر مشرف نے درحقیقت ملک کی تباہی کی بنیاد رکھی تھی۔ ہم نے بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی صورت میں اس کردار کا ہی خمیازہ بھگتا ہے مگر جس افغان دھرتی کے تحفظ کیلئے ہم فرنٹ لائن اتحادی بنے، اسکے سابق حکمران کرزئی نے ہم پر دہشت گردی کے الزامات کی بوچھاڑ کئے رکھی اور نیٹو فورسز کو بھی پاکستان کے اندر کارروائی کی ترغیب دیتے رہے۔ طالبان کی شکل میں مسلح دہشت گردوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھی کرزئی کے دور میں ان کی شہ پر ہی شروع ہوا جو جتھہ بند ہو کر پاک افغان سرحد عبور کرتے اور یہاں سکیورٹی چیک پوسٹوں اور سویلین آبادی پر یلغار کرکے افغانستان واپس فرار ہو جاتے۔ طالبان کے بھیس میں سارے دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے افغان دھرتی پر ہی بنے رہے ہیں۔ اس وقت بھی مولوی فضل اللہ سمیت زیادہ تر طالبان کمانڈر افغانستان میں ہی پناہ لئے ہوئے ہیں جن کی افغانستان میں موجودگی اور سانحہ پشاور سمیت پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد وارداتیں کرانے کے ٹھوس ثبوت اور شواہد آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی افغان صدر اشرف غنی کو بھی پیش کر چکے ہیں جبکہ آرمی چیف نے اپنے دورہ امریکہ کے موقع پر یہ ثبوت پینٹاگون کو بھی فراہم کئے تھے۔ اس تناظر میں پاکستان تو خود افغانستان سے متقاضی رہا ہے کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث طالبان کیخلاف اپریشن کرکے ان کا قلع قمع کرے یا ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرے۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ موجودہ افغان حکومت کو بھی دہشتگردوں کے مکمل قلع قمع کی فکر لاحق ہے جس کیلئے وہ اسلام آباد سے تعاون کا عندیہ دے رہی ہے۔ اب افغان صدر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان سے آنیوالے دہشتگردوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا تو پاکستان کیلئے اس سے زیادہ اطمینان بخش اور کوئی صورتحال نہیں ہو سکتی کیونکہ اپریشن ضرب عضب میں پسپائی اختیار کرنیوالے یہ دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان میں ہی اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رہے ہیں۔ اگر انہیں افغان دھرتی پر بھی پناہ نہیں ملے گی تو پھر انہیں دہشت گردی کیلئے کھل کھیلنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ افغان حکومت کو اب بلاتوقف افغان دھرتی میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس اپریشن شروع کردینا چاہئے جس کیلئے پاکستان سے بھی معاونت لی جا سکتی ہے اگر افغان دھرتی بھی دہشت گردوں پر تنگ ہو گئی تو اس خطہ میں امن و امان کی بحالی میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اس سلسلہ میں افغان صدر کو اب عملی اقدامات بھی اٹھا لینے چاہئیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38