کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں لاہور پریس کلب کے سامنے روڈ بلاک کر دی جنہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور 52 مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں گرفتار افراد کو وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر رہا کر دیا گیا۔ اسی طرح مال روڈ لاہور پر ایپکا کے زیر اہتمام کلرکوں کا مطالبات کے حق میں احتجاج۔ ٹریفک کا نظام کئی گھنٹے معطل۔
گزشتہ روز لاہور میں دو اہم مقامات پر حکومتی پالیسی کیخلاف احتجاج کیا گیا۔ حکومت پنجاب کیلئے یہ احتجاجی ماحول جو کہ صوبے کے اہم اور غریب طبقوں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے نہایت پریشان کن امر ہے۔ کسانوں کا احتجاج گذشتہ ایک ہفتے سے پنجاب بھر میں جاری ہے جسے پولیس کے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دانشمندی کا یہی راستہ ہے کہ کسانوں کے جائز مطالبات پر ہمدردانہ غور کر کے ان کی دادرسی کی جائے تاکہ وہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ ہوں۔ اس ضمن میں حکومت پنجاب کو ایسی کسان دوست پالیسی بنانی چاہئے جس سے محنتی کسانوں کو اُن کے حقوق مل سکیں اور حکومت پر اُن کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اس وقت انہیں اپنی فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے، بجلی کے بلوں میں اوور بلنگ، جی ایس ٹی کے اطلاق اور اسکے ختم نہ کئے جانے کا شکوہ ہے اور اس تناظر میں ان کا احتجاج بلا جواز نہیں ہے۔ دوسری طرف ایپکا ملازمین اور نابینا افراد بھی اپنے مطالبات اور مسائل کے حل کیلئے سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ان کی نوکریوں پر بحال کیا جائے اور نابینا افراد کیلئے بھی سرکاری نوکریوں میں کوٹے کو بڑھایا جائے۔ مختلف طبقات زندگی کے لوگوں کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں آئے روز سڑکوں پر آنا پنجاب حکومت کی نیک نامی کا ہرگز باعث نہیں بن رہا جبکہ اس سے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی گورننس پر بھی حرف آ رہا ہے۔ اگرچہ اب حمزہ شہباز شریف کے کسانوں سے مذاکرات ہو گئے ہیں اور اسحاق ڈار نے جلد مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تاہم طفل تسلیوں سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتابلکہ حکومت پنجاب عملی اقدامات اٹھا کر احتجاجی طبقات کو مطمئن کرے تاکہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے آئے روز سڑکیں بند اور ٹریفک بلاک ہونے کا سلسلہ رُک سکے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024