کراچی امن و امان پر پی اے ایف بیس میں اعلیٰ سطح کی میٹنگ اور وزیراعظم کا متحدہ سے ملاقات سے گریز
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ کراچی کا امن واپس لا کر رہیں گے‘ اپریشن آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک جاری رہے گا‘ کراچی اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ گزشتہ روز اپنے دورۂ کراچی کے موقع پر پی اے ایف بیس فیصل پر امن و امان کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن کسی جماعت کیخلاف نہیں بلکہ مجرموں کیخلاف ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی اپریشن تمام جماعتوں کی مشاورت سے شروع ہوا تھا اور اپریشن کے ذریعے ہم شہر میں جرائم کو روکنے اور کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب شہر میں ٹارگٹ کلنگ‘ اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلح ملیشیا اور فرقہ واریت میں ملوث افراد پنجاب یا سندھ میں کہیں بھی ہوں‘ وہ بچ نہیں سکیں گے۔ کراچی میں قیام امن کے بغیر پاکستان اقتصادی اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔
کراچی میں رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے دوران وہاں سے غیرملکی اسلحہ سمیت ایم کیو ایم کے متعدد عہدیدار اور کارکن گرفتار ہوئے تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے انکشافات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ بطور خاص ایم کیو ایم کے کارکنوں عمیر صدیقی اور صولت مرزا کے بیانات نے تو تہلکہ پیدا کر دیا جنہوں نے اپنے بیانات کے ذریعے کراچی کی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی تقریباً ہر واردات کا ملبہ ایم کیو ایم پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ایسے انکشافات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور متحدہ کے زیر حراست رہنما عامر احمد کے حوالے سے بھی ایسی خبریں زیرگردش ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے بیان میں بہت سے انکشافات کردیئے ہیں۔ اس سے بادی النظر میں اس تاثر کوتقویت حاصل ہو رہی ہے کہ رینجرز اپریشن میں صرف ایک پارٹی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جو انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے علاوہ پیپلزپارٹی کے قائدین کی جانب سے بھی نائن زیرو کراچی پر رینجرز کے چھاپے پر تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ اسی فضا میں وزیراعظم نوازشریف گزشتہ روز دورۂ کراچی پر گئے تو انہوں نے امن و امان کے حوالے سے اجلاس کیلئے گورنر ہائوس یا وزیراعلیٰ ہائوس کے بجائے پہلی بار پی اے ایف بیس کراچی کا انتخاب کیا جبکہ اس اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو مدعو کیا گیا نہ وزیراعظم کی جانب سے متحدہ کے وفد کو ملاقات کیلئے وقت دیا گیا۔ گورنر سندھ اگرچہ وزیراعظم کے استقبال کیلئے کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھے تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ کو وزیراعظم کے استقبال کیلئے بھی نہیں بلایا گیا تھا اور وہ خود ہی کراچی ایئرپورٹ پہنچ گئے تھے۔ اسی طرح ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان ڈاکٹر فاروق ستار اور فیصل سبزواری بھی میڈیا کے روبرو شکوہ کر چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وفد وزیراعظم سے ملاقات کا منتظر ہی رہا مگر وزیراعظم کی جانب سے انہیں ملاقات کا وقت نہیں دیا گیا۔ اس صورتحال میں تو وزیراعظم کی کراچی کی سرگرمیوں سے بھی یہی پیغام گیا ہے کہ متحدہ کیخلاف اپریشن میں رینجرز کو وفاقی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وزیراعظم نے کراچی میں گورنر سندھ کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں مدعو نہ کرکے اور متحدہ کے وفد سے ملاقات سے گریز کرکے رینجرز کو متحدہ کیخلاف مزید اپریشن کیلئے بھی گرین سگنل دے دیا ہے۔
بے شک کراچی اپریشن کے ذریعے جرائم پیشہ عناصر بشمول ٹارگٹ کلرز‘ لینڈ مافیاز اور بھتہ خوروں کے قلع قمع کی راہ ہموار ہوئی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں رینجرز اپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا جن کے بقول یہ اپریشن کسی جماعت کیخلاف نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کیخلاف ہو رہا ہے تاہم گزشتہ دو ہفتوں کے دوران رینجرز اپریشن میں متحدہ کے ٹارگٹ ہونے اور اب وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے متحدہ کے گورنر سندھ کو فاصلے پر رکھنے اور متحدہ کے وفد سے ملاقات سے گریز کرنے سے متحدہ کیخلاف انتقامی سیاسی کارروائیوں کے الزامات کو ہی تقویت حاصل ہو گی جس سے کراچی اپریشن کامیابیوں کے باوجود مشکوک ہو سکتا ہے جبکہ امن و امان کی میٹنگ کیلئے وزیراعظم کی جانب سے پی اے ایف بیس کے انتخاب سے بھی حکومتی رٹ کے حوالے سے منفی پیغام ہی جائیگا۔ کیونکہ پی اے ایف ایک تو مسلح افواج کا ادارہ ہے اور دوسرے یہ کہ کراچی اپریشن میں پی اے ایف کا کوئی کردار بھی نہیں ہے۔ اگر وزیراعظم کے اس اجلاس کا مقصد کراچی اپریشن کے حوالے سے رینجرز کا حوصلہ بڑھانا تھا تو امن و امان کے اجلاس کیلئے وہ رینجرز ہیڈکوارٹر کا انتخاب کر سکتے تھے جبکہ وہ وزیراعلیٰ ہائوس یا وفاقی حکومت کے سرکٹ ہائوس میں بھی میٹنگ بلا سکتے تھے مگر انہوں نے میٹنگ کیلئے پی اے ایف بیس کا انتخاب کیا جس سے موجودہ حالات میں جمہوری نظام کی کمزوری کا تاثر پیدا ہو سکتا ہے۔
اگر گورنر سندھ کی ذات کے حوالے سے وزیراعظم کو تحفظات تھے تو انہیں سبکدوش کرکے نیا گورنر لایا جا سکتا تھا جس کے بارے میں گزشتہ ایک ہفتے سے شدومد کے ساتھ افواہوں کا بازار بھی گرم ہے مگر جب تک ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے منصب پر فائز ہیں‘ انکے منصب کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا ریاستی اداروں اور حکومتی مشینری کی ذمہ داری ہے۔ اگر وزیراعظم کراچی جا کر امن و امان کی میٹنگ گورنر ہائوس میں طلب کرتے ہیں نہ گورنر سندھ کو میٹنگ میں مدعو کرتے ہیں تو یہ اقدام گورنر کے منصب کی توہین کرنے کے مترادف ہے جبکہ اس پالیسی سے رینجرز اپریشن پر جانبداری کا لیبل بھی لگ سکتا ہے جو اپریشن کی کامیابی کو بھی گہنا دیگا۔
ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سکیورٹی فورسز بلاشبہ کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہیں جنہیں حکومت‘ سیاسی قائدین اور عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے جبکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہماری اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نوازشریف نے امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خود اس امر کا اظہار کیا کہ کراچی اپریشن تمام جماعتوں کی مشاورت سے شروع کیا گیا ہے جس میں یقیناً متحدہ بھی شامل تھی اس لئے دانشمندی کا یہی تقاضا ہے کہ اس اپریشن پر جانبداری یا کسی کیخلاف سیاسی انتقامی کارروائی کا شائبہ بھی نہ ہونے دیا جائے چنانچہ وزیراعظم کراچی میں امن و امان سے متعلق میٹنگ میں سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے متحدہ کے رہنمائوں کو بھی مدعو کرلیتے اور گورنر سندھ کو بھی مشاورت کے عمل میں شریک رکھتے تو اس سے کراچی اپریشن پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملتا جبکہ اب وزیراعظم کی جانب سے متحدہ کو نظرانداز کرنے سے کراچی اپریشن کے بارے میں سارے کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔
جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کیلئے اٹھائے گئے کسی اقدام پر کسی کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی بشرطیکہ وہ اقدام مکمل شفاف ہو اور اس سے یکطرفہ کارروائی کا کوئی تاثر نہ ملتا ہو۔ اگر وزیراعلیٰ سندھ بھی اپنی پارٹی کے تحفظات کے باوجود کراچی کے رینجرز اپریشن کو نتیجہ خیز قرار دے رہے ہیں اور انکے بقول یہ اپریشن جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کیلئے کیا جارہا ہے تو یہ صورتحال اپریشن کی غیرجانبداری پر منطبق ہو سکتی ہے۔ اگر اس اپریشن کے دوران متحدہ کے لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں جن پر متحدہ کی قیادت کو کسی قسم کا اعتراض ہے تو عدلیہ کی صورت میں ان کیلئے دادرسی کے دروازے کھلے ہیں۔ چنانچہ اپریشن میں کسی جانبداری کے شواہد ملیںگے تو قانون اور انصاف کی عملداری میں متحدہ کی شکایات کا ازالہ ہو جائیگا۔ تاہم وزیراعظم نے اپنے دورۂ کراچی میں متحدہ کو دانستہ طور پر نظرانداز کرکے کراچی اپریشن کی غیرجانبداری پر خود ہی تشکیک کا رنگ چڑھا دیا ہے جبکہ موجودہ لمحات میں تو کراچی اپریشن کی غیرجانبداری پر کوئی چھینٹ بھی نہیں پڑنے دینی چاہیے تھی۔ وزیراعظم کے رطب اللسان حلقے انہیں ’’مردِبحران‘‘ کے لقب سے نوازتے رہتے ہیں۔ اب انکے دورۂ کراچی سے ایک پارٹی کیخلاف سیاسی انتقامی کارروائی کے تاثر سے ممکنہ طور پر جو بحران پیدا ہو گا‘ اس کا ازالہ کیسے کرنا ہے‘ اس کیلئے وزیراعظم کے سیاسی اور قانونی مشیروں کو ابھی سے پیش بندی کرلینی چاہیے۔ اگر موجودہ صورتحال میں کراچی اپریشن کامیابیوں کو چھوتا ہوا ناکامیوں کے گڑھے میں جا گرا تو ملک کیلئے اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں ہوگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024