اوباما‘ مودی ملاقات میں ایٹمی تجارت اور دفاعی تعلقات کے معاہدے اور بھارت کی جانب امریکی جھکاﺅ کا واضح عندیہ
امریکہ اور بھارت کے مابین سول نیوکلیئر تجارت شروع کرنے کا سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ اس سلسلہ میں دونوں ممالک نے اربوں ڈالر کی نیوکلیئر اور دفاعی تجارت کرنے اور دفاعی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کیلئے اقدامات اور منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قابل اعتماد اور دیرپا سٹرٹیجک شراکت عمل میں آئیگی۔ امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کا بھی اعلان کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ون آن ون ملاقات کے بعد سات بڑے اور اہم اعلانات کئے گئے جن میں سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی معاہدے میں پیشرفت‘ مزید دفاعی تعاون‘ انسداد دہشت گردی کے مزید اقدامات‘ مزید تجارتی معاہدے کرنے‘ کلین انرجی پر مذاکرات جاری رکھنے‘ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون اور امریکہ اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں میں مزید ہاٹ لائنز کا قیام شامل ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ کے مطابق بھارت اور امریکہ نے دفاعی شعبے میں اگلے دس سال کیلئے معاہدے کرلئے ہیں۔ بھارت اور امریکہ ڈیجیٹل بھارت کیلئے کام کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق امریکہ جوہری مواد سے ٹریکنگ ڈیوائسز ہٹانے پر بھی تیار ہو گیا ہے جس کیلئے صدر اوباما نے اپنے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کے بقول اب بھارت نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل ہونے کیلئے بھی پرعزم ہے۔ بی بی سی کے مطابق دونوں ممالک نے دفاع‘ ماحولیات اور تجارت کے شعبوں میں زیادہ تعاون کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کا اپنے دور اقتدار میں یہ دوسرا دورہ¿ بھارت ہے اور بھارت روانگی سے دو روز قبل اوباما نے جس لب و لہجے میں پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالے سے تنبیہہ کی اور پھر بھارت کو اپنا علاقائی فطری اتحادی قرار دیا‘ وہ پاکستان کیلئے واضح پیغام تھا کہ اسے خطے میں امریکہ ہی نہیں‘ بھارتی پالیسیوں اور اقدامات کی بھی اطاعت کرنا ہو گی۔ ون آن ون ملاقات کے بعد اوباما اور مودی کی مشترکہ پریس کانفرنس بھی پاکستان کیلئے اسی پیغام میں لپٹی ہوئی نظر آتی تھی جس میں اوباما اپنے تمام وسائل بھارت پر نچھاور کرتے بھارتی جمہوریہ کے گن گاتے نظر آئے جبکہ وہ بھارت آنے سے پہلے ہی نریندر مودی کو علاقے کا ویژنری لیڈر قرار دے چکے تھے اور مودی سے ملاقات کے دوران انہوں نے یہ جتانا بھی ضروری سمجھا کہ ہم بھارت سے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔اوباما کا دورہ بھارت‘ ان کا پاکستان آنے سے گریز اور بھارت میں دیئے جانیوالے بیانات اس امر کا ثبوت ہیں کہ امریکہ پاکستان کا اتحادی ہونے سے دستکش ہو کر اب اپنا پورا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال چکا ہے جس کی اس خطے میں امریکی مفادات کے حوالے سے مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے مستحکم جمہوری نظام کے باعث اس خطہ میں اپنے مفادات کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔ اسے بھارت میں اپنے لئے وسیع منڈی بھی نظر آرہی جبکہ علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کے توڑ کیلئے بھی امریکہ کی نظر بھارت پر ہی ہے جس سے وہ ایٹمی‘ دفاعی اور تجارتی معاہدے کرکے اسے علاقے کی تھانیداری سونپنے میں زیادہ سہولت محسوس کر رہا ہے جبکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے پھیلاﺅ کے حوالے سے امریکہ اور بھارت یکساں طور پر پاکستان کے ساتھ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور افغانستان اور پاکستان میں اس نیٹ ورک کیخلاف اپریشن کی بھی مشترکہ حکمت عملی طے کر چکے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر اب بھی امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے تو یہ سوائے منافقت کے اور کچھ نہیں ہو گا جبکہ امریکہ عملی طور پر اپنے مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ کر چکا ہے۔
اس حوالے سے امریکہ کی علاقائی ترجیحات کی تبدیلی میں یقیناً پاکستان کی غلطیوں کا بھی عمل دخل ہے جسے دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی قرار دینے کے باوجود امریکہ کے پاکستان کے کردار کے حوالے سے تحفظات برقرار رہے اور وہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتا رہا۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ کو پاکستان میں جمہوری نظام کے مستحکم ہونے کی بھی کوئی توقعات نظر نہیں آرہیں کیونکہ پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمران اپنی ناقص پالیسیوں‘ بری حکمرانی اور عوامی مسائل کے حل میں بے نیازی کے نتیجہ میں اپنے آپ کو جمہوری حکمرانی کیلئے خود ہی نااہل ثابت کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ملک میں حکومت مخالف تحریکوں کی صورت میں پیدا ہونیوالی سیاسی افراتفری بھی جمہوریت کی کمزوری پر منطبق ہوتی رہی ہے اور پھر بجلی‘ گیس اور تیل جیسے سنگین بحرانوں سے عہدہ برا¿ ہونے میں حکمرانوں کی ناکامی بھی جمہوری نظام کی کمزوری کے کھاتے میں پڑتی رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ¿ چین کو بھی اوباما کے دورہ بھارت کا جواب سمجھا جا رہا ہے۔بے شک آرمی چیف کا موجودہ دورہ¿ چین اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ صدر اوباما کے دورہ¿ بھارت کے موقع پر امریکہ کے بھارت کی جانب مکمل جھکاﺅ پر آرمی چیف کے دورہ¿ چین سے امریکہ اور بھارت دونوں کو ٹھوس پیغام ملا ہے تاہم یہی پیغام پاکستان کے سربراہ حکومت اور آرمی چیف کے مشترکہ دورہ¿ چین کے ذریعے دیا جاتا تو یہ زیادہ اثرپذیر ہوتا۔ اسکے برعکس اب یہ تاثر زیادہ اجاگر ہوا ہے کہ پاکستان کی سول حکومت کی دعوت پر شیڈول کیا گیا چینی صدر کا دورہ¿ اسلام آباد تو پاکستان میں جاری سیاسی افراتفری کے باعث مو¿خر کردیا گیا تھا جبکہ اب چین نے پاکستان کے آرمی چیف کے دورہ¿ بیجنگ پر انکے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کرلئے ہیں جو سسٹم میں افواج پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے سیاسی استحکام اور سرمایہ کاری کیلئے غیرمحفوظ حالات نے جہاں پاکستان کو دنیا میں تنہاءکیا ہے‘ وہیں امریکہ جیسے مفاد پرست دوست بھی بھارت کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال میں مشیرامور خارجہ سرتاج عزیز کی یہ خوش فہمی سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے کہ اوباما کا دورہ¿ بھارت خطے کی بہتری کا باعث بنے گا۔ امریکہ کے بھارت کی جانب مکمل جھکاﺅ سے تو اب ہماری سلامتی کیخلاف اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہونگے جس نے اوباما کے دورہ¿ بھارت کے موقع پر بھی کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھانے سے گریز نہیں کیا اور انکی بھارت میں موجودگی کے دوران گزشتہ تین روز سے وہ چاروا اور بجوات سیکٹرز پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب بھارت امریکہ کے ساتھ ایٹمی تجارت شروع ہونے اور مزید امریکی دفاعی تعاون حاصل ہونے کے باعث نیوکلیئر سپلائر گروپ کا حصہ بننے کے خواب دیکھ رہا ہے تو وہ امریکی سرپرستی میں حاصل ہونیوالی اس ایٹمی طاقت کے زعم میں پاکستان کے ساتھ حالات سازگار بنانے کی راہ پر کیسے آئیگا۔ اسکی تو اب طاقت کے زور پر کشمیر کا قضیہ ختم کرنے کی ہی نہیں‘ پاکستان کی سلامتی پر بھی اوچھا وار کرنے کی کوشش ہو گی جس کیلئے وہ اب پہلے سے زیادہ پراعتماد ہو چکا ہے اور اسی تناظر میں کشمیری حریت لیڈر یٰسین ملک نے گزشتہ روز نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اوباما کے دورہ¿ بھارت سے کسی بہتری کی ہرگز امید نہیں۔
امریکی اخبار ”وال سٹریٹ جرنل“ کی ایک رپورٹ میں تو یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ امریکی صدر اوباما کا بھارت جانے اور پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اسلام آباد کیلئے اس قدر حساس تھا کہ اوباما کو گزشتہ نومبر میں وزیراعظم نوازشریف کو فون کرکے اسکی وجہ بتانا پڑی تھی۔ پھر کیا ہمارے دفتر خارجہ نے اوباما کی بتائی گئی اس وجہ کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی تحفظات دور کرنے کے اقدامات اٹھائے یا اسکی کوئی کوشش کی؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اب سرتاج عزیز کس خوش فہمی میں بھارت کی جانب مکمل امریکی جھکاﺅ کے پیغام پر مبنی اوباما کے دورہ¿ بھارت سے خطے کی بہتری کی توقعات وابستہ کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں اوباما کا دورہ¿ بھارت پاکستان کیلئے بیک وقت پیغام اور سبق بھی ہے کہ وہ سسٹم کو مستحکم بنا کر اپنی عالمی تنہائی ختم کرے اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑے۔ بصورت دیگر بھارتی سسٹم اور معیشت کی مضبوطی کے ناطے امریکی صدر آج اس نریندر مودی کو خطے کا وژنری لیڈر قرار دے رہے ہیں جس پر مسلم کش اقدامات کے حوالے سے امریکہ میں داخل ہونے پر بھی باضابطہ پابندی عائد تھی تو پاکستان میں سسٹم اور معیشت کی مضبوطی کی صورت میں اوباما اپنے دورہ¿ بھارت کے موقع پر پاکستان کا دورہ بھی اپنے شیڈول میں شامل نہ کرنے کا شاید تصور بھی نہ کرپاتے۔ ہمارے حکمرانوں کو اب اوباما کے دورہ¿ بھارت سے حاصل ہونیوالے سبق پر غور کرنا ہو گا اور نریندر مودی کی کامیاب سفارت کاری پر رشک اور افسوس دونوں کرنا چاہیے۔