سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے حکومتی جماعت مسلم لیگ ن مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں 5 مارچ کو ہونیوالے سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے مسلم لیگ ن کی تجویز کی حمایت کرتی ہیں تاہم ان جماعتوں میں سے کچھ نے اس حوالے سے آئینی پیچیدگیوں کی وجہ سے نئی قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ حکومت کی طرف سے قائم رابطہ کمیٹیوں کو اس حوالے سے واضح کامیابی نہیں ملی۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے رابطے تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئینی ترمیم کو یقینی بنانے کیلئے کوششیں کامیاب بنانے کا کہا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم خود پارٹی قائدین سے رابطے کر کے اس حوالے سے مدد مانگیں گے۔ پیپلز پارٹی نے مذکورہ ترمیم کیلئے اے پی سی بلانے کی تجویز دی ہے جس سے حکومت نے اتفاق کیا ہے۔ حکومت نے سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے ’’شو آف ہینڈ‘‘ کی بجائے بیلٹ پیپر پر ارکان قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی کے نام کے ساتھ پہلی اور دوسری ترجیح تحریر کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے رواں ماہ کے شروع میں 2 فروری کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینٹ کے ووٹ کی قیمت 2کروڑ تک پہنچ گئی ہے‘ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن طریقے سے کرایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کردیا کہ خیبر پی کے میں وہ خفیہ رائے دہی کے باوجود اوپن بیلٹنگ کرائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینٹ الیکشن میں خفیہ رائے دہی کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ عمران خان کی اوپن ووٹنگ کے مطالبے پر مسلم لیگی اور اے این پی کے رہنمائوں نے یہ کہتے ہوئے مضحکہ اڑایا کہ عمران خان کو اپنے ہی ارکان پر اعتماد نہیں ہے۔ ٹی وی چینلز پر مسلم لیگی زعماء خفیہ رائے دہی کے حق میں دھواں دھار بحث کرتے دکھائی دیئے۔ عمران خان جس ہارس ٹریڈنگ کی بات کر رہے تھے‘ اسکی تصدیق 20 فروری کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کی۔ اس سے ایک دو روز قبل فاٹا میں ایک ووٹ کی قیمت 25 کروڑ اور بلوچستان میں 5 کروڑ تک پہنچنے کی خبریں آچکی تھیں۔ ہر پارٹی سینٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستوں کے حصول کیلئے کوشاں رہتی ہے‘ سو یہ پارٹیاں اپنے کام میں مگن رہیں۔ پھر اچانک مسلم لیگ ن کے رویے میں کایا پلٹ تبدیلی 23 فروری کو واضح ہوئی جب وفاقی کابینہ نے میاں نوازشریف کی سربراہی میں سینٹ الیکشن میں اوپن ووٹنگ کیلئے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ۔ متفقہ ترمیم کیلئے دیگر پارٹیوں سے رابطوں کیلئے کمیٹیاں بنا کر دوڑادی گئیں۔ جو وزراء عمران خان کے اوپن ووٹنگ کے مطالبے کا مذاق اڑارہے تھے‘ آج وہ اوپن ووٹنگ کیلئے دیگر جماعت سے رابطہ کرنیوالی کمیٹیوں میں شامل ہیں۔
آج سیاسی عمل میں سرگرم پارٹیاں ایک آدھ کے سوا تمام کی تمام ہارس ٹریڈنگ میں ملوث رہی ہیں‘ متعدد تو ہارس ٹریڈنگ میں بڑا نام رکھتی ہیں۔ نئی نسل شاید مری‘ چھانگا مانگااور سوات سیاست سے آگاہ نہ ہو‘ جبکہ مسلم لیگ (ق) کے یونیفکیشن گروپ کے جنم سے آگاہ ہو گی۔ ببول بوئیں گے تو پھول نہیں اگیں گے۔ آج کی معروضی سیاست کے خمیر میں ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن رچی ہوئی ہے۔ وزیراعظم اور انکی کابینہ کو اوپن ووٹنگ کیلئے ترمیم کا فیصلہ اپنے ارکان پر عدم اعتماد کے باعث کرنا پڑا۔ 2012ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بلوچستان اور پیپلزپارٹی کے ساتھ پنجاب میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ ن لیگ کو بلوچستان اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ان ارکان کی تلاش رہی جو خفیہ ووٹنگ کے دوران دغا دے گئے تھے۔ اب دونوں پارٹیوں کو یقین تھا کہ وہ مطلوبہ تعداد سے زیادہ سینٹ میں نمائندگی حاصل کرلیں گی۔ جب تک امید تھی مسلم لیگ ن اوپن ووٹنگ کے نام سے چڑ جاتی تھی۔ بلوچستان میں صورتحال اپنے حق میں نظر نہ آئی اور پنجاب میں پی پی پی کی فعال مہم کو دیکھا تو ن لیگ کی قیادت کا خفیہ رائے شماری سے اعتماد اٹھ گیا جبکہ پیپلزپارٹی کو خفیہ ووٹنگ کے ذریعے پنجاب میں ایک نشست نکالنے کا یقین ہے۔ مولانا فضل الرحمان اپنے حصے سے دگنا پانے اور لے جانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
سینٹ الیکشن میں جس طرح ہارس ٹریڈنگ کا شور ہے‘ اس پر سینٹ کے انتخابی کالج کے ہر رکن کا کردار مشکوک ہوکر رہ گیا ہے۔ لگتا ہے ہر کوئی اپنا ووٹ فروخت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ انتخابی کالج کے لوگ اوپر سے ٹپکے ہیں نہ ان کو کہیں سے درآمد کیا گیا ہے۔ ان کو باقاعدہ پارٹیوں نے ٹکٹ جاری کئے اور وہ عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ جب پارٹیاں فنڈز کے نام پر امیدواروں سے بڑی بڑی رقمیں بٹوریں گی تو ایسے لوگ ہی سامنے آئینگے جن پر آج اسی پارٹی کا سربراہ اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔ سینٹ کے الیکشن میں پارٹیوں کی دولت مندوں پر نظر رہتی ہے۔ کسی کارکن کو شاید ہی کسی پارٹی نے ٹکٹ دیا ہو۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے تو نوازشات کی حد کر دی۔ کاسہ لیسوں اور حاشیہ برداروں کو ایک صوبے سے دوسرے میں لے جا کر سینیٹر بنوایا جا رہا ہے۔ جو ٹیکنوکریٹ نہیں اسے بھی ٹیکنوکریسی کا کلاہ پہنادیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن بھی مروجہ سیاسی کلچر کا عکاس ہے۔ اس نے اس میڈیا رپورٹ کی تردید نہیں کی جس میں کہا گیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں امیدواروں کے کاغذات خفیہ خط نے منظور کرائے۔ الیکشن کمیشن کے آراوز کو جانچ پڑتال کے دوران قوانین نظرانداز کرنے کی ہدایت کی۔
بڑی پارٹیوں نے عام آدمی کیلئے پارلیمنٹ میں پہنچنے کا کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے۔ جو پارٹیاں عام آدمی کو آگے لانے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ ان کا بھی وفاداری جانچنے کا ایک خاص معیار اور طریقہ کار ہے۔ اس معیار پر پورا اترنے والا عام آدمی نہیں رہتا۔
پارٹیوں کے اندر میرٹ ہوتا اور پارٹیوں کی قیادت دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی تو سیاست بھی آلودگیوں سے پاک ہوتی۔ کتنے سیاست دان ہیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترتے ہیں‘ آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق کہیں نظر نہیں آتا۔ پھر ایسے لوگ تو سامنے آئینگے جو پارٹی فنڈ اور انتخابی مہم پر دو تین کروڑ روپے صرف کرتے ہیں تو اس رقم کو کئی گنا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرینگے۔
تمام خامیاں اور برائیاں اپنی جگہ آج ہارس ٹریڈنگ پر قابو پانے کیلئے کوشش ہو رہی ہے۔ اسکی جو بھی وجوہات ہوں‘ ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے جو لوگ اسکی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ وژن لیس ہیں اور وقتی مفادات کے اسیر ہیں۔ مولانا کے اس جواز میں کوئی وزن نہیں کہ 21ویں ترمیم کے ڈسے ہوئے ہیں‘ 22 ویں ترمیم کی حمایت نہیں کر سکتے۔ گویا 21ویں ترمیم اگر انکے حق میں نہیں تھی تو وہ اب ترمیم کے ذریعے کوئی بھی خیر کا کام نہیں ہونے دینگے۔ پیپلزپارٹی کا 22ویں ترمیم کیلئے اے پی سی بلانے کا مطالبہ بھی ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کیلئے خلوص نیت کا اظہار نہیں ہے۔ ہارس ٹریڈنگ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ اور اسکے بدن پر ناسور ہے۔ اسے مٹانے اور کاٹ پھینکنے کیلئے ہر سیاسی پارٹی کو رضاکارانہ طور پر حکومت کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں ہارس ٹریڈنگ پر قابو پانے کیلئے اوپن ووٹنگ کے علاوہ کوئی تدبیر کارگر نظر نہیں آتی۔ جب تک پارٹیاں نیک نیتی سے جمہوری روح کے مطابق ٹکٹیں تقسیم نہیں کرتیں اور آئین کے آرٹیکل 62‘ تریسٹھ کا اطلاق نہیں ہوتا‘ اس وقت تک سینٹ کے الیکشن اوپن کروائے جائیں۔ اس کیلئے بیلٹ پر ووٹر کے نام کا اندراج مناسب اور بہتر طریقہ ہو سکتا ہے تاکہ ہر رکن18ویں ترمیم کے مطابق اپنی پارٹی کے تابع ووٹ کاسٹ کرے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024