بھارت کا پاکستان سے کشمیر پر مذاکرات سے باضابطہ انکار اور درست سمت اختیار کرتی ہماری کشمیر پالیسی
مودی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے باضابطہ طور پر انکار کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کو تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے گزشتہ روز نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک نجی ٹی وی کو بتایا کہ بھارتی سیکرٹری برائے خارجہ امور ایس جے شنکر کا مراسلہ دفتر خارجہ کو موصول ہوگیا ہے جو بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمبانوالہ نے سیکرٹری خارجہ پاکستان کو فراہم کیا۔ اس مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان سے قطعاً مذاکرات نہیں کریگا۔ سیکرٹری خارجہ پاکستان اعزاز چودھری نے 9 اگست کو اپنے ہم منصب بھارتی سیکرٹری خارجہ کو باضابطہ طور پر پاکستان آنے اور مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کرنے کی دعوت دی تھی جس کے جواب میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کی جانب سے باور کرایا گیا کہ وہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں تاہم مذاکرات میں صرف کشمیر نہیں بلکہ سرحد پار سے ہونیوالی دہشت گردی پر بھی بات ہوگی۔ اب بھارت نے کشمیر پر مذاکرات کرنے سے باضابطہ طور پر انکار کر دیا ہے اور سیکرٹری خارجہ پاکستان کو اپنے مراسلہ میں پیغام بھجوایا ہے کہ بھارت صرف دہشت گردی اور سرحد پار سے دراندازی کے معاملات پر مذاکرات کریگا۔ دفتر خارجہ اس بھارتی مراسلے کا جائزہ لے رہا ہے اور اس حوالے سے مشاورت کے بعد نئی دہلی کو جواب دیا جائیگا۔
پاکستان کی سلامتی و استحکام کے حوالے سے بھارتی خبث باطن کا اظہار تو قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہے اور تقسیم ہند کے ایجنڈے اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دینا اور اسکے ایک بڑے حصے پر فوجی تسلط جما کر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا بھارتی خبث باطن کا عملی مظاہرہ تھا۔ بھارت آج تک پاکستان کی سالمیت کمزور کرنیوالی اپنی اس پالیسی پر ہی کاربند ہے جو اس پالیسی کی بنیاد پر پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرکے اسے دولخت کرچکا ہے اور اٹوٹ انگ کے دعوے کی بنیاد پر وہ اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے چکا ہے جبکہ کشمیری عوام نے تقسیم ہند کے وقت ہی بھارتی عزائم بھانپ کر کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے عزم کا اعادہ کیا اور اس مقصد کیلئے بھارتی فوجوں کے تسلط کیخلاف آزادی کی تحریک شروع کی جو عظیم اور بے مثال قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے ہوئے گزشتہ 68 سال سے جاری ہے اور بھارتی جبر و نخوت کو روندتے اور ہر قسم کی ترغیبات کو ٹھکراتے ہوئے کشمیری عوام نے اپنی جاری رکھی ہوئی اس جدوجہد کے کسی ایک مرحلے پر بھی اپنے پائے استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہیں ہونے دی۔
چونکہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے اور پاکستان کی خوشحالی اور استحکام کی ضمانت ہے جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بھارتی عزائم سے متصادم ہے اس لئے بھارت نے کشمیر پر اپنا تسلط جما کر اور پھر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر پاکستان کیخلاف اپنے عزائم کی تکمیل کا راستہ اختیار کیا ہے چنانچہ اس سے کبھی یہ توقع کی ہی نہیں جا سکتی کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل پر آمادہ ہوگا۔ اسی تناظر میں بھارت نے آج تک پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی اور وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے پاکستان بھارت مذاکرات کی میز الٹاتا اور پاکستان کو کشمیر بھول جانے کے مشورے دیتا رہا ہے۔ اسی پس منظر میں بھارت نے اپنی ہی درخواست پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بلائے گئے اجلاسوں کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد سے اب تک گریز کیا ہے جن کے ذریعے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ کشمیری عوام تو اپنی آزادی کی تڑپ میں جانی اور مالی قربانیاں دیتے ہوئے آزادی کی منزل تک پہنچنے کی تگ ودو میں مصروف رہے ہیں جس کیلئے انہوں نے اپنی تحریک کے مقصد اور بھارتی مظالم کو اقوام عالم میں اجاگر کرنے کیلئے تحریک میں جدت پیدا کی اور بھارتی سنگینوں کے سامنے اپنے جذبوں کو مثال بنا کر پیش کیا جس سے یقیناً دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوجوں کے مظالم پر مرکوز ہوئی جس کے توڑ کیلئے بھارت نے پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگانا شروع کردیئے۔ آج جذبے سے معمور کشمیری عوام کی جدوجہد بھی نیا رنگ اختیار کررہی ہے اور کشمیریوں کی تیسری نسل کے ہاتھوں میں آچکی ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے تک بھارتی مظالم کے دلدوز مناظر پہنچا چکے ہیں چنانچہ کشمیری نوجوانوں کی اس جدوجہد کے نتیجہ میں ہی آج دنیا یکسو ہو کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کررہی ہے اور کشمیریوں کے حق خوداختیاری کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت پر استصواب کے اہتمام کیلئے دبائو ڈال رہی ہے جس کے باعث آج کشمیریوں کی منزل فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوئی نظر آرہی ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ دوستی‘ تجارت‘ ثقافتی و معاشرتی تعلقات میں چاہے جتنی بھی پیشرفت کرلیں‘ بھارت سیدھے سبھائو کشمیری عوام کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلہ کو قبول کریگا نہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی بھی سطح کے مذاکرات ہونے دیگا جبکہ وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں میں امریکی سرپرستی کی بنیاد پر افغانستان کو بھی شریک کرچکا ہے چنانچہ کابل اور دہلی کی ملی بھگت سے افغان سرزمین آج پاکستان میں گھنائونی دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق بھارت کشمیر پر مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہونے دینے کی خاطر پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگا کر مقبوضہ کشمیر میں جاری اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری سابق اور موجودہ حکومت کی بھارت کے ساتھ ریشہ خطمی پالیسیوں کی وجہ سے اسے اب تک ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہا ہے اور بھارتی دراندازی کے الزامات کی بنیاد پر ہی امریکہ اور دوسری عالمی قوتوں کی جانب سے پاکستان پر ہی دہشت گردی کے خاتمہ کے مزید سے مزید اقدامات اٹھانے کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے تاہم کشمیری نوجوانوں کی تحریک کی جدت اور انکے بے پایاں جذبوں نے آج صورتحال یکسر بدل دی ہے اور آج دنیا اس حقیقت پر قائل ہو رہی ہے کہ بھارت کشمیری عوام پر ہی مظالم نہیں توڑ رہا بلکہ افغان حکومت کی معاونت سے ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان بھجوا کر دہشت گردی اور خودکش حملوں کی گھنائونی وارداتوں کے ذریعہ پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کررہا ہے جو درحقیقت پورے خطے اور عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ اس تناظر میں آج عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو مکمل ادراک ہوچکا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی سرپرستی اور فنڈنگ کی اور بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے پورے بلوچستان میں پھیلائے گئے نیٹ ورک نے ان ملک دشمن عناصر کو پاکستان میں دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کیلئے استعمال کیا جس کیلئے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں سے کام لیا گیا۔ یہی دہشت گرد کوئٹہ‘ کراچی‘ پشاور‘ شمالی‘ جنوبی وزیرستان‘ لاہور‘ اسلام آباد سمیت پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردی کی وارداتیں کرکے پاکستان کے سکیورٹی معاملات کو چیلنج کرتے رہے ہیں اور سانحہ کوئٹہ کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی مچلتی خواہش زبان پر لا کر جس رعونت کے ساتھ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر آزاد کشمیر میں بھارتی ترنگا لہرانے کا اعلان کیا اور پھر بھارتی یوم آزادی پر بلوچستان‘ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل ہونے کی بڑ ماری اس پر پوری دنیا انکے عزائم سے آگاہ ہوچکی ہے جبکہ بلوچستان اور کشمیر سمیت ملک بھر میں مودی کی مذمت کیلئے ہونیوالے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے پاکستان کے عوام نے قومی یکجہتی کا دنیا کو مؤثر پیغام دے دیا ہے۔ اسی تناظر میں جہاں گزشتہ روز دفتر خارجہ پاکستان نے دنیا کو آگاہ کیا ہے کہ بلوچستان کے عوام نے مودی کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے‘ وہیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی افغان صدر اشرف غنی کو ٹیلی فونک گفتگو میں باور کرایا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین بھارت کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے سے روکے۔
اس صورتحال میں ہمارے حکمرانوں کو بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میںاس حقیقت کو سامنے رکھ کر دوٹوک پالیسی اختیار کرنا ہوگی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کبھی ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں کریگا‘ مجوزہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل تک بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع رکھنے چاہئیں اور اپنی سفارتکاری کو مزید تیز کرکے جنرل اسمبلی کے آئندہ ماہ کے اجلاس میں بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا چاہیے۔ بھارت اس عالمی دبائو کی بنیاد پر ہی کشمیری عوام کو استصواب کا حق دینے اور ان پر مظالم کا سلسلہ ختم کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔