18 سال بعد ہونیوالے کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات کے غیرسرکاری، غیرحتمی نتائج کے مطابق حکمران مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا جبکہ دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار رہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے مکمل 199 وارڈز کے غیر حتمی، غیرسرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے 67 جبکہ آزاد امیدواروں نے 55 نشستیں حاصل کیں۔ تیسرے نمبر پر تحریک انصاف 43 سیٹوں کے ساتھ رہی۔ دیگر جماعتوں میں ایم کیو ایم 19، پیپلز پارٹی 7، عوامی نیشنل پارٹی 2 اور جماعت اسلامی کو 6 نشستیں ملیں۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں 610 آزاد امیدوار جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے 541 امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے۔ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ 137 امیدوار میدان میں اتارے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 128 امیدوار انتخابی عمل میں شریک تھے۔
پورے ملک کے کینٹ ایریاز میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اجتماعی طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ یہ الیکشن فوج کی زیر نگرانی ہوئے بعض مقامات پر پولنگ دیر سے شروع ہوئی اور معمولی لڑائی جھگڑے بھی ہوئے تاہم مجموعی طور پر انتخابات پرامن رہے۔ جس کا سہرا الیکشن کمیشن، فوج اور مقامی انتظامیہ کے سر جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کا انعقاد، جنرل اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی طرح ایک آئینی تقاضا ہے۔ جس کی جنرل مشرف کی فوجی اور ان کے بعد آنیوالی جمہوری حکومتوں میں روگردانی کی جاتی رہے۔ سپریم کورٹ نے یہ آئینی تقاضا پورا کرنے پر زور دیا۔ تو پس و پیش کے بعد کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن کرا دیئے گئے۔ سپریم کورٹ ہی کی ہدایت پر خیبر پی کے، سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بھی ہونیوالے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات سے گریز کی پالیسی اختیار کئے رکھی۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی پروا نہ کی گئی۔ اب سپریم کورٹ نے زیادہ زور دیا تو یہ حکومتیں لیت و لعل کے بعد نومبر میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد پر رضا مند ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے روایتی بہانہ بازی سے کام لینے کی کوشش ضرور کی تاہم سپریم کورٹ کے احکامات کی بجا آوری کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا خان آئین و قانون کی پاسداری کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ گو یہ الیکشن بروقت نہیں مقررہ وقت سے کئی سال بعد ہو رہے ہیں تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی ہو جائیں تو ایک آئینی تقاضا پورا ہو گا اور اقتدار گراس روٹ لیول تک منتقل ہونے سے عوام کے مسائل ان کے اندر رہنے والے نمائندوں کے ذریعے حل ہونگے جو دراصل ان نمائندوں کے اپنے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ترقیاتی کاموں کے لئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کروڑوں کے فنڈز دیتی ہیں جن کا زیادہ حصہ خورد برد کر لیا جاتا ہے ان تک عام آدمی کی رسائی بھی نہیں ہوتی۔ بلدیاتی نمائندوں کے حلقے محدود ہوتے ہیں ان تک عام آدمی کی رسائی بھی ہوتی ہے بلدیاتی نمائندوں کے لئے فنڈز کو خورد برد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کنٹونمنٹ بورڈز میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کیونکہ ان کا چیئرمین حاضر سروس فوجی ہوتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے انعقاد سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق یقینی ہو گیا ہے۔ مئی میں خیبر پی کے اور نومبر میں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں ہر پارٹی کی مقبولیت کا صحیح اندازہ ہو سکے گا۔ جماعتی بنیادوں پر ہونیوالے کنٹونمنٹ کے انتخابات کو اگر پارٹیوں کی مقبولیت کا بیروبیٹر مان لیا جائے۔ تو مسلم لیگ ن نے اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھی اور تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ر ہی ہے مگر یہ نتائج ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کو صرف سات نشستیں مل سکیں جبکہ جماعت اسلامی پیپلز پارٹی سے صرف ایک نشست پیچھے رہی گویا پیپلز پارٹی جو عام انتخابات میں سندھ تک محدود ہو گئی تھی اس کا اب سندھ سے بھی مکمل صفایا ہو گیا۔ جبکہ جماعت اسلامی جہاں تھی وہیں سیاست میں کوئی مقام بنانے کی حسرت و یاس کی کیفیت میں ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین صدارت کے دور میں طنزاً کہا کرتے تھے ”میاں صاحب سیاست ہم سے سیکھیں“۔ زرداری صاحب نے 2013ءکے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آر اوز کے الیکشن تھے۔ اب فوج کے زیر انتظام الیکشن ہوئے اور پی پی پی کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل گئی۔ یہ اب مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور متحدہ کے بعد چوتھی پوزیشن پر آگئی ہے۔ دوسروں کو سیاست سکھانے والے اب خود کسی سے سیاست سیکھیں۔
مسلم لیگ ن تو پہلی پوزیشن پر ہے مگر 2013ءکے حوالے سے تناسب کی بات کی جائے تو اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور پنجاب تک بدستور محدود رہی۔ لاہور سے تحریک انصاف نے 20 میں سے 5 نشستیں حاصل کیں۔ گوجرانوالہ میں ن لیگ نے کلین سویپ کیا تھا وہاں بھی پی ٹی آئی نے کچھ نشستیں حاصل کی ہیں۔ 67 اور 43 میں گو کہ کافی فرق ہے مگر 2013ءکے انتخابات کو سامنے رکھا جائے تو یہ فرق بہت کم ہے۔ عمران خان 2013ءکے انتخابات میں جس پیمانے پر دھاندلی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں کراچی کے حلقہ 246اور پھر کل کے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات سے یہ درست ثابت نہیں ہو رہے گو تحریک انصاف دوسرے نمبر پر آئی ہے تاہم عمران خان اپنی مقبولیت کے جو دعوے کرتے رہے ہیں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج بھی ان کو صحیح ثابت نہیں کر رہے البتہ اب یہ واضح ہو گیا کہ پیپلز پارٹی اگر کوئی غیر معمولی فیصلے نہیں کرتی اور کارکردگی کو ڈرامائی انداز میں بہتر نہیں بتاتی تو عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے مدمقابل تحریک انصاف ہی ہو گی اور وہ اب مسلم لیگ ن کی سیاسی غلطیوں کا اسی طرح فائدہ اٹھائے گی۔ جس طرح ن لیگ نے پیپلز پارٹی کی غلطیوں کا اٹھایا تھا۔ مسلم لیگ ن کو اپنی بقاءکے لئے گورننس کو بہتر بنانے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے دن رات ایک کرنا ہو گا گورننس میں شفافیت سب سے اہم ہے۔
لاہور میں خواجہ سعد رفیق کی فعالیت کے باعث مسلم لیگ ن کی کارکردگی بہتر رہی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اس طرح متحرک رہ کر ہی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے پاس خیبر پی کے میں خود کو بھی رول ماڈل ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا تو یہ مسلم لیگ ن کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادتوں کو کرپٹ قرار دیتی ہے۔ 2013ءکے انتخابات میں تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی فروخت کی باتیں ہوتی رہیں اب بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں بے ضابطگیوں کی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں عمران خان بلدیاتی سے قبل ان کا تدراک ضرور کریں جو الزام آپ اپنے مخالفین پر لگاتے ہیں وہی آپ کے دامن گیر ہو رہا ہے۔