آصف زرداری مزید دو ریفرنسز سے بری‘ نیب اصل دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہا‘ احتساب عدالت
احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کو ایس جی ایس اور کوٹیکنا ریفرنسوں میں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ریفرنسوں کی اصل دستاویزات کے بغیر نہ کارروائی آگے بڑھائی جاسکتی ہے نہ ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 11نومبر کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، آصف علی زرداری پر غیرملکی کمپنی کو پری شپمنٹ ٹھیکہ دینے میں کمیشن وصولی کا الزام تھا، مذکورہ دونوں ریفرنس میاں نوازشریف کے دور میں1998ء میں بنائے گئے، ریفرنس میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بھی نامزد کیا گیا تھا تاہم 2007ء میں انکی شہادت کے بعد بے نظیر کا نام ریفرنس سے خارج کر دیا گیا ، کیس میں سابق چیئرمین سی بی آر اے آر صدیقی کو بھی عدالتی کارروائی کے بعد مقدمہ سے بری کر دیا گیا تھا، دونوں ریفرنسوں میں نیب کو احتساب عدالت کی طرف سے متعدد مرتبہ اصل دستاویزات فراہم کرنے کا موقع دیا جاتا رہا تاہم نیب کی طرف سے پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوتے اور اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا عدالت میں موقف رہا کہ نیب کے پاس اصل دستاویزات ہی نہیں۔ نیب کے پاس ایسے شواہد بھی نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ آصف زرداری نے مذکورہ کمپنیوں سے کمیشن وصول کیا۔ سابق صدر ان ریفرنسوں میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ این آر او کے ذریعے یہ ریفرنس ختم ہوئے مگر این آر او کو عدالت کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد یہ ریفرنس دوبارہ بحال ہو گئے تھے، دونوں ریفرنسوں میں شہادتیں مکمل ہونے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے بریت کی درخواست دی گئی تھی۔ آصف علی زرداری اے آر وائی، پولو گرائونڈ اور ارسس ٹریکٹر ریفرنس سے بھی بری ہو چکے ہیں۔ یہ مقدمات مسلم لیگ ن کے سابق دور میں قائم کئے گئے تھے۔اب آصف زرداری کیخلاف آمدن کے معلوم ذرائع سے زیادہ جائیداد بنانے سے متعلق ریفرنس راولپنڈی کی احتساب عدالت میں زیرسماعت ہے۔
کرپشن نے ملکی معیشت کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ کرپشن آج کا نہیں پرانا مسئلہ ہے۔ آج حکومت معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی دعویدار ہے۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے ریکارڈ قرضے حاصل کئے۔ ان کا حجم پاکستان کی تاریخ میں حاصل کئے گئے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت قرض حاصل کرنے میں پیپلزپارٹی کی صحیح جاں نشین ثابت ہوئی‘ اس نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دور ہی میں پیپلزپارٹی کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔ آج حکومت قرض کا سود ادا کرنے کیلئے بھی قرض لیتی ہے۔ اقتدار میں آکر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض کی پہلی قسط ملی تو وزیراعظم نے قوم کو مبارکباد دی۔ وزیر خزانہ ہر قسط کی وصولی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت انتخابی مہم کے دوران کشکول توڑنے کے دعوے اور وعدے کرتی رہی ۔ قرضوں سے معیشت کی مضبوطی کا تاثر ایک فریب ہے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں کرپشن انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔ بہت سی حکومتی شخصیات پر انکی اپنی حکومت کے دوران کرپشن کے کیس بنے۔ ان میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف جیسے اعلیٰ ترین حکومتی عہدیدار بھی شامل تھے۔ وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی جیل میں رہے۔ پیپلزپارٹی کے اپنے چیئرمین نیب فصیح بخاری نے کہا تھا کہ پاکستان میں ہر روز 14 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس دور میں کہا کرتی تھی کہ وہ اقتدار میں آکر لوٹ مار کی پائی پائی وصول کریگی۔ شہباز شریف تو دانت پیس کر کہتے تھے فلاں کو بھاٹی چوک میں‘ فلاں کو موچی دروازے میں گھسیٹوں گا۔ افسوس کہ کرپشن کے سامنے اب بھی بند نہیں باندھا جا سکا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بدعنوانی اور جرم پر استوار کلچر لاقانونیت کو فروغ دے رہا ہے۔ آڈیٹرجنرل آف پاکستان نے 2014-2013 کی آڈٹ رپورٹ میں وزارت پانی وبجلی کے زیر انتظام چلنے والے ادارے واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) سمیت دیگر پاور کمپنیز کے اکاؤنٹس میں 980 ارب روپے کے غبن اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے صدر ممنون حسین سے سفارش کی ہے کہ وہ ان تمام گھپلوں کی تحقیقات کرانے کاحکم دیں۔آڈیٹرجنرل کا کہنا ہے کہ یہ رقم 4 کھرب روپے کے وفاقی بجٹ برائے 2016-2015 کے ایک چوتھائی کے برابر ہے۔آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں گزشتہ چند سالوں کے دوران 4 کھرب 2 ارب روپے کا آڈٹ نہ ہونے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
نیب متعصب نااہل اور جانبدار نظر آتا ہے۔ اسکی طرف سے سپریم کورٹ میں 150 میگا کرپشن کیسز کی رپورٹ پیش کی گئی‘ ان میں سے کئی 16 سال قبل درج ہوئے۔ ملزموں میں نوازشریف‘ شہباز شریف‘ زرداری‘ گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی سمیت بہت سے ’’شرفا‘‘ کے نام شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرنے ہی کو نیب نے اپنا فرض منصبی سمجھا۔ ان کیسز میں سرمور پیشرفت نہیں ہوئی۔شاید نیب کے سربراہ پرویز رشید اور ایازصادق کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ نیب کا بھی احتساب ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت برملا کہتی ہے کہ پی پی پی اور (ن) لیگ کی طرف سے متفقہ چیئرمین نیب لانے کا مقصد ہی اپنی کرپشن کو تحفظ دینا ہے۔ متعدد مسلم لیگی اور پی پی حلقے بھی دبے لفظوں میں اسکی تائید کرتے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا ہی ہورہا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کو بری کرنیوالے جج نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’’ریفرنسوں کی اصل دستاویزات کے بغیر کارروائی آگے بڑھائی جا سکتی ہے نہ ملزم کو سزا دی جا سکتی ہے۔ نیب کو احتساب عدالت کی طرف سے متعدد بار اصل دستاویزات فراہم کرنے کا موقع دیا جاتا رہا۔ نیب کی طرف سے پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوتے اور اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت کو باور کراتے رہے کہ نیب کے پاس اصل دستاویزات نہیں ہیں۔ آخر اصل دستاویزات کہاں گئیں؟ قوم کو یاد ہے کہ آصف علی زرداری کیخلاف سوئس عدالتوں میں کیس کھولنے کیلئے خط لکھنے پر پی پی پی کی حکومت تیار نہیں تھی‘ یوسف رضا گیلانی کو اسی بنا پر نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت وزراء اور وکلاء نے کبھی نہیں کہا کہ سوئس کیسز غلط ہیں‘ ان کا موقف تھا کہ صدر صاحب کو استنثیٰ حاصل ہے۔ خط اس وقت لکھا گیا جب ٹائم بارڈ ہوچکا تھا اور موقع پا کر برطانیہ میں پاکستانی سفیر واجد شمس الحسن سوئس کیس کی دستاویزات ٹرک میں لاد کر برطانیہ لے گئے۔
پاکستان میں عدل ِعمرؓ کارفرما ہوتا‘ اول تو دستاویزات گم نہ ہوتیں اگر گم ہوتیں تو دوسرے روز برآمد بھی ہو جاتیں۔ احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف علی زرداری نے آٹھ سال جیل کاٹی چھ ریفرنسز میں بری ہو چکے ہیں‘ ان سے سیاسی انتقام لینے کیلئے سیف الرحمان نے جھوٹے کیسز بنائے۔ اگر یہ واقعی جھوٹے کیسز ہیں تو اسکے منصوبہ ساز کو کٹہرے میں لایا جائے مگر سوال یہ ہے کہ جھوٹے کیسز کی جھوٹی دستاویزات اِدھر اُدھر کیوں اور کس نے کیں؟ پراسیکیوٹر نے کیس میں دلچسپی کیوں نہیں لی؟
سیاسی انتقام‘ سیاسی انتقام کا واویلا قصہ پارینہ ہو چکا ہے‘ میڈیا اس قدر آزاد اور لوگ باشعور ہیں۔ کرپٹ لوگوں کی اصلیت ان سے چھپی نہیں رہتی۔ سیاسی بنیادوں پر کسی پر الزام لگا کر اسے مجرم قرار دیا جا سکتا ہے نہ ہی جرم کرکے کسی بھی طرح حق میں فیصلے کرواکے سرخرو ہوا جا سکتا ہے۔ ایک عدالت اوپر بھی ہے جس سے اگلی دنیا میں تو انصاف ہونا ہی ہے کہ اس دنیا میں بھی وہ انصاف کرنے پر قادر ہے۔ اگر زرداری صاحب پر لگنے والے الزامات درست تھے تو مدعیان کو مقدمہ ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ نیک نیتی سے لڑنا چاہیے تھا‘ اس کیس میں سرکاری خزانے کا بھی نقصان کیا گیا اور عدالت کا وقت بھی ضائع کیا گیا۔