امریکہ نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ و (داعش ) کیخلاف کارروائیوں میں شریک اپنے اتحادیوں سے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر زور دیا ہے۔ اس سلسلہ میں اتحاد میں شامل 65ممالک میں سے 59 کے سفیروں کو داعش کیخلاف مہم کے حوالے سے بات چیت میں شریک کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانس کے بحیرہ روم میں پہنچنے والے بحری بیڑے سے اس وقت عراق اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر حملے جاری ہیں جبکہ امریکہ نے شام میں داعش کے 283 آئل ٹینکر تباہ کر دئیے ہیں۔ دوسری جانب ترک فضائیہ نے فضائی حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر روس کے ایس یو 24جنگی طیارے کو ایف 16طیارے کے ذریعے مار گرایا جس پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ روس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ ماسکو نے اس سلسلہ میں ترکی کے ساتھ فوجی تعلقات بھی ختم کر دئیے ہیں۔
یہ بات اب دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اپنے مفادات کی خاطر امریکہ نے خود دہشت گرد تنظیم داعش کو جنم دیا اور اسے خلیجی ریاستوں میں وہاں کے حکمرانوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں میں استعمال کیا۔ اب یہی داعش پیرس حملوں کے حوالے سے مغرب اور یورپ میں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس تنظیم کے خاتمہ کی فکر لاحق ہوئی ہے مگر اس بارے میں بھی امریکہ کا دہرا معیار ہے جو شام میں بدستور داعش کو ہی وہاں کے حکمران بشارالاسد کیخلاف استعمال کر رہا ہے اس لئے جب روس کی جانب سے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاتی ہے تو امریکہ اس پر روس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا نظر آتا ہے۔ ترکی بھی چونکہ امریکی اتحادیوں میں شامل ہے اس لئے اسکی جانب سے گزشتہ روز روسی جنگی طیارے کو مار گرایا جانا درحقیقت اس کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے سے باز رہے۔ اس کا یہ جنگی جہاز شام میں داعش کیخلاف اپریشن میں ہی استعمال ہو رہا تھا جسے مار گرانے کا مقصد اس اپریشن پر روس کو سزا دینا ہے۔ روسی صدر نے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ روس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ اگر امریکہ فی الواقع داعش کا خاتمہ چاہتا ہے تو اسے شام میں داعش کیخلاف روس کے اپریشن کی حمائت کرنی چاہئے مگر وہ الٹا روس کو ہی سبق سکھانے پر تلا بیٹھا ہے جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ اپنے سپر پاور ہونے کے زعم میں علاقائی اور عالمی معاملات میں اپنی پالیسیوں کو ہی مقدم سمجھتا ہے چاہے اسکے نتیجہ میں علاقائی اور عالمی امن کو مزید خطرات ہی کیوں نہ لاحق ہو جائیں اس پالیسی کے تحت امریکہ درحقیقت تیسری عالمی جنگ کی راہ ہموار کر رہا ہے جس کے دنیا کی تباہی کی صورت میں ہی نتائج برآمد ہونگے۔ اگر امریکہ کو علاقائی اور عالمی امن مقصود ہے تو وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ وہ دوسروں کی خودمختاری میں مداخلت کریگا تو اسکے ردعمل میں ٹکرائو ہو گا اور نوبت ایٹمی جنگ تک آن پہنچے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024