سپریم کورٹ نے آئندہ ماہ 5 دسمبر سے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی خدمات واپس لیتے ہوئے حکومت کو باور کرایا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے مزید مہلت نہیں دی جا سکتی۔
آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت جو گزشتہ اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی، قومی اتفاق رائے کے نام پر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی رضامندی سے عمل میں لانے کی پابندی عائد کی گئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ متفقہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں کسی کو انتخابی عمل پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ مقصد تو آئینی تقاضے کے تحت متفقہ طور پر اس منصب پر فائز ہونیوالے سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم پر گزشتہ سال کے انتخابات کے حوالے سے عمران خاں، پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہونیوالی سخت تنقید سے ویسے ہی بے معنی ہو گیا ہے جبکہ خود حکومت بھی عمران خاں کے مقابلے میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگاتی نظر آتی ہے اس لئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا فلسفہ اب کارآمد نظر نہیں آتا جبکہ اب حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناروا تاخیر کرکے نہ صرف اس آئینی اختیار کی روح نکالی جا رہی ہے بلکہ مروجہ انتخابی نظام کی ناقد اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی نظام کی بھد اڑانے کا مزید موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں عمران خاں اور طاہرالقادری یہ پراپیگنڈہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ موجودہ اسمبلیوں میں ایکا کئے بیٹھی حکومت اور اپوزیشن قومی وسائل اور اقتدار کی بندر بانٹ کیلئے سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اگر حکومت اور اپوزیشن کی نیت میں کوئی فتور نہ ہو تو چیف الیکشن کمشنر پر اتفاق رائے کیلئے کسی طویل ایکسرسائز کی ضرورت کبھی نہ پڑے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ حکومت چاہے تو معاملہ ایک دن میں طے ہو سکتا ہے۔ اگر فی الواقع نیت کے کسی فتور کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں تاخیر کی جا رہی ہے تو پھر حکومت کو ایک نئے آئینی بحران کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ اب مزید مہلت دینے پر قطعاً آمادہ نہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ اب مزید کسی پس و پیش کے بغیر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں یکم دسمبر تک کر دیا جائے تاکہ آنیوالے ضمنی انتخابات ممکنہ نئے آئینی بحران کی زد میں آنے سے بچ سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024