پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ روز اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مالی آڈٹ کے دوران تین ارب کی خلاف ضابطہ سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا جو وفاقی ملازمین کے ایمپلائیز بینوولنٹ فنڈ سے غیر حکومتی مالیاتی اداروں میں ہوئی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے روبرو طویل سوال جواب کے بعد تسلیم کیا کہ سرمایہ کاری اگرچہ ایف ای بی کے مجاز ادارے کی منظوری سے عمل میں آئی تاہم اس کے لئے جو طریقِ کار اپنایا گیا وہ غلط تھا۔ نیب سے اس بارے رپورٹ مانگ لی گئی ہے۔ سرکاری اداروں اور محکموں کے حوالے سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی وقتاً فوقتاً سامنے آنے والی فائنڈگ پر کماحقہ عملدرآمد نہ ہونے کی شکایات عام ہیں جس پر چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی سید خورشید شاہ نے بجا طور پر باور کرایا کہ سرکاری اداروں نے کمیٹی کو مذاق سمجھ رکھا ہے۔ ان کی طرف سے کمیٹی سے حقائق چھپانے اور اسے اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فیڈرل ایمپلائز بنیوولنٹ فنڈ یتیموں بیوائوں کا پیسہ ہے جس پر افسر شاہی کی شاہ خرچیاں افسوسناک ہیں۔ مالی معاملات کو شفاف رکھنے کیلئے اگر بروقت اقدامات کر لئے جائیں تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ نیب کا معیار دوہرا ہے۔ ای او بی آئی میں 20ملین کا فراڈ ہوا پوری کمیٹی جیل میں اور کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ نیب کی طرف سے فیڈرل بینوولنٹ فنڈ میں گھپلے کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونا افسوسناک ہے۔ متعلقہ محکمے اور ادارے اپنے طور پر اس طرح کے معاملات کی شفاف تحقیقات کر لیا کریں تو نیب اور ایف آئی اے کو نہ صرف تحقیقات میں آسانی ہو گی بلکہ کیس بھی جلد حل ہو سکیں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024