گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو گیا۔ ملک بھر میں بجلی کی بندش 10 سے 14 گھنٹے تک پہنچ گئی جس پر لوگ حسب سابق سراپا احتجاج بن گئے۔ بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر گیا جس سے دیہی علاقوں میں 14 اور شہری علاقوں میں 10 گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بجلی کی پیداوار 9 ہزار میگاواٹ اور طلب 13600 میگاواٹ سے تجاوز کر گئی۔ صنعتی سیکٹر میں بھی دو تین روز قبل سے لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ لیسکو حکام کے مطابق صنعتوں کی بجلی شام چھ بجے سے رات دس بجے تک بند رہا کریگی۔ انڈسٹریل سیکٹر نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے شیڈول مسترد کر دیا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا مو¿قف ہے کہ اسے بجلی کا بحران ورثے میں ملا۔ اس کو پانچ سو ارب روپے کا سرکلرڈیٹ بھی ورثے میں ملا تھا جو جیسے تیسے ادا ہو گیا۔ اس سے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے فوری طور پر ریلیف کی امید پیدا ہوئی تھی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتا گیا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہ رہا‘ گیس بھی ناپید ہو گئی۔ سی این جی سیکٹر آج تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ وزارت پٹرولیم نے نومبر میں چار ماہ کیلئے سی این جی سٹیشن بند کئے تھے‘ اب پانچواں ماہ بھی مکمل ہونے کو ہے‘ یہ سیکٹر بند پڑا ہے۔ گھروں میں بھی مسلسل گیس فراہم نہیں کی جارہی۔ صنعتی سیکٹر بھی واویلا کرتا نظر آتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گیس من پسند آئی پی پیز کو فراہم کی جا رہی ہے مگر آئی پی پیز حکومت کو گیس سے بننے والی بجلی بھی فرانس آئل سے پیدا ہونیوالے نرخوں پر بیچ رہی ہیں۔
معیشت کی مضبوطی کیلئے انرجی کا وافر مقدار میں دستیاب ہونا ضروری ہے۔ اس پر ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھی زور دیاہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے 2014ءکے اقتصادی جائزہ کیمطابق پاکستان میں توانائی کا بحران معیشت کیلئے سب سے بڑا رسک ہے۔ کنٹری ڈائریکٹر اے ڈی بی کیمطابق جون تک پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فراہم کرینگے۔ اے ڈی بی نے نجکاری کے حوالے سے بھی پاکستان کو مشورہ دیاکہ سرکاری بجلی گھر منافع میں ہیں انہیں فروخت کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو سرکاری بجلی گھر بجٹ پر بوجھ ہیں انکی نجکاری ہونی چاہئے۔ گو ایشیائی ترقیاتی بنک نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے توانائی بحران کو قابو کرنے میں مدد ملی مگر آن گراﺅنڈ ایسا نظر نہیں آتا۔ اس بنک نے بھی گردشی قرضوں میں اضافے پر تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا بڑھنا پاکستانی معیشت کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
انرجی بحران پر قابو پانے کی حالیہ کوششوں میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا چین سے تعاون حاصل کرنے کیلئے دورہ¿ چین بھی شامل ہے۔ چین کے مقتدر مالیاتی ادارے انڈسٹریل اینڈ کمرشل بنک آف چائنہ (ICBC) نے میاں شہبازشریف کو پنجاب میں انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ یقین دہانی گزشتہ روز بیجنگ میں بنک کے چیئرمین جیانگ جیانکنگ نے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کو ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کرائی۔
جہاں تک کوششوں کی بات ہے تو موجودہ حکومت نے ملک کو توانائی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر کوئی کوشش بارآور ثابت ہوتی نظر نہیں آتی۔ پاور پراجیکٹس کی تعمیر کی لسٹ بڑی طویل ہے۔ نیلم‘ جہلم پراجیکٹ قوم کو دکھایا جارہا ہے‘ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے زور و شور سے ذکر ہورہا ہے۔ جنرل مشرف‘ شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی اپنے اپنے دور میں اس کا افتتاح کرچکے ہیں مگر تعمیر کا آغاز نہیں ہو رہا۔ توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے چین کے ساتھ کئی معاہدے ہوئے‘ ترکی اور دیگر ممالک سے معاہدے ہوئے۔ سعودی عرب نے اس شعبے میں پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ثمرمبارک مند کوئلے سے بجلی بحران ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا یقین دلا رہے ہیں۔ گڈانی پراجیکٹ سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں۔ یہ پراجیکٹ بھی کھو کھاتے چلا گیا۔ جتنے پراجیکٹس شروع کرنے کے منصوبے بنے‘ وہ شروع ہوجاتے تو مستقبل ہی میں لوڈشیڈنگ سے نجات کی توقع کی جا سکتی تھی۔ سرکاری ادارے نیپرا نے گزشتہ دنوں کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 2020ءمیں بھی ختم نہیں ہوگی ۔ نیپرا نے انکشاف کیا ہے کہ 2020ءتک بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی، ملک میں بجلی کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہو جائیگا۔ سٹیٹ آف انڈسٹری 2014ءکی رپورٹ کے مطابق 2013 ءمیں جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا وہ تیزی کے ساتھ مکمل نہیں ہو رہے، ان منصوبوں کو تیزی کے ساتھ مکمل کیا جائے، نئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ملک میں بجلی کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہو جائیگا۔گڈانی پاور منصوبہ جس پر ڈیڑھ سال تک کام کیا گیا اس منصوبے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ سال 14-2013 میں بجلی کے صارفین کو کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا، البتہ لوڈ شیڈنگ میں معمولی کمی ہوئی۔ صارفین سال 2013-14ءمیں اووربلنگ کی شکایات کرتے رہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات اور وصولیوں میں کمی کے باعث 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے باوجود صورتحال بہتر ہوئی نہ عوام کو ریلیف ملا۔
انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کے قائدین چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی نوید سناتے رہے۔ اب اپنی مدت کے خاتمے تک اس سے نجات کے دعوے کررہے ہیں۔ نیپرا کی 2020ءمیں بھی لوڈشیڈنگ ختم نہ ہونے کی رپورٹ پر چند وزراءنے شدید احتجاج کیا مگر جو نیپرا نے حقائق بیان کئے‘ ان پر غور کی زحمت گوارہ نہیں کی۔
حیران کن امر یہ ہے کہ خود سرکاری اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 19855 میگاواٹ ہے۔ اس میں سے واپڈا ہائیڈل سے 6461 میگاواٹ اور تھرمل سے 4811 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی پیداوار 1260 میگاواٹ ہے۔ آئی پی پیز کی صلاحیت 6365 میگاواٹ ہے۔ اٹامک انرجی کمیشن 462 میگاواٹ ہے۔ کچھ سال قبل تک ضرورت 15 ہزار میگاواٹ تھی‘ پیداواری صلاحیت سے پوری طرح استفادہ نہ کرنے کے باعث پیداوار کم ہوئی تو صنعتی سیکٹر شدید متاثر ہوا۔ لاکھوں کی تعداد میں صنعتیں بند ہوئیں جو باقی رہ گئیں ان کیلئے آج محض ساڑھے 13 ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہے‘ وہ بھی پوری نہیں ہورہی۔
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چودھری عابد شیرعلی نے کہا ہے کہ بجلی چوری جیسی لعنت کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ لائن لاسز اور دیگر ٹیکنیکل مسائل جو کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں‘ کا ازالہ گرڈ سٹیشنوں کی استعداد کار بڑھا کر اور نئے گرڈ سٹیشنوں کی تعمیر سے کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت آج کی ضرورت سے زیادہ ہے مگر اس کو بروئے کار نہیں لایا جا رہا۔ کیوں؟ اس کا جواب حکومتی کارپردازان کو دینا چاہیے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا ترسیلی نظام ضرورت کے مطابق بجلی کا لوڈ ہی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس طرف آج کے حکمرانوں کی توجہ بھی ماہرین اور محکموں نے دلائی۔ شاید اس حکومت کو بھی لانگ ٹرم پالیسیوں سے زیادہ اپنی مدت پوری کرنے سے دلچسپی ہے مگر ان کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عوام کو کچھ کرکے دکھائیں گے تو اگلی ٹرم بھی آپکے نام ہو سکتی ہے ورنہ پیپلزپارٹی کا پانچ سالہ لوڈشیڈنگ سے بھرپور دور اور انتخابات میں اس کا انجام سامنے ہے۔ میٹروز اور موٹرویز عوام کی یقیناً ضرورت ہیں‘ مگر روٹی کا حصول انکی اولین ضرورت ہے۔ توانائی وافر مقدار میں دستیاب ہو گی تو معیشت پھلے پھولے گی‘ صنعتوں کا جال بچھے گا‘ کھیت کھلیانوں میں ہریالی ہو گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے تو حکمرانوں کی نیک نامی ہو گی اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024