امام صحافت مجید نظامی کی دوسری برسی......ہم معمار نوائے وقت کے اصولی صحافت کے تابناک مشن پر کاربند رہیں گے
ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان جابر سلطان کے آگے کلمہ¿ حق کہنے والے مردِ مجاہد اور امامِ صحافت مجید نظامی کو اس دارفانی سے کوچ کئے آج دو برس بیت گئے۔ بانیان و مشاہیر پاکستان کی صف میں شامل مجید نظامی کی ملّی‘ قومی اور صحافتی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے الفاظ کے ذخیرے بھی ختم ہو جائیں تو بھی ان کیلئے خراج عقیدت کا حق ادا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی پیشہ¿ صحافت میں انکی بے باکانہ قیادت اور آبرومندی کا کوئی بدل موجود ہے۔ انکی رحلت دو سال قبل 26 جولائی کو لیلة القدر کی شب ہوئی جو فلاح و بہبودِ انسانیت اور دین و وطن کیلئے انکی بے پایاں خدمات پر قدرت کی گواہی ہے....ع
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
مجید نظامی کا شمار بلاشبہ ذاتِ باری تعالیٰ کے محبوب بندوں اور ربِ کائنات کے ودیعت کردہ رحمت اللعالمین محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق میں ہوتا تھا‘ جنہوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ملک خداداد کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں‘ آدرشوں اور انکے زریں اصولوں کے مطابق یہاں جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے وقف کر دیا جس میں انہوں نے اپنے نفع نقصان کی پرواہ کی نہ جرنیلی اور سول آمروں کی ترغیب و تخویف کو کبھی خاطر میں لائے۔ وہ اپنی ذات میں خوبیوں ہی خوبیوں اور صفات ہی صفات کا مجموعہ تھے جو برملا اس امر کا اظہار و اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے جانبدار ہیں اور اس جانبداری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینگے۔ انکے سچے اور کھرے پاکستانی ہونے کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دشمن اول بھارت بھی انہیں اپنا دشمن اول قرار دیتا رہا جبکہ وہ نظریہ پاکستان اور ملک کی سالمیت کیخلاف کسی بھی فورم پر کوئی بات برداشت کرتے تھے نہ اس پر کسی مفاہمت پر آمادہ ہوتے تھے۔ وہ اسی ناطے سے نوائے وقت گروپ کے ذریعے بھارت نواز حکمرانوں اور دوسرے حلقوں سے ٹکر مول لیتے‘ انکی اصلاح و خبرگیری کا اہتمام کرتے رہے۔ انہوں نے ہمہ وقت کشمیر کاز کو سپورٹ کیا اور کالاباغ ڈیم کی وکالت کی جس کیلئے انہوں نے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر قومی ریفرنڈم بھی کرایا تو اس میں تحفظ و بقاءاور استحکام پاکستان کیلئے انکی دردمندی ہی جھلکتی نظر آتی تھی۔ وہ ملک کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی و قومی سلامتی کے معاملہ میں کسی حکمران کے پائے استقلال میں لغزش پیدا ہوتی محسوس کرتے تو ببانگ دہل اسے للکارتے اور ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرتے۔ اس تناظر میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد جوابی ایٹمی دھماکوں کیلئے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو گومگو میں پڑے دیکھ کر مجید نظامی نے انہیں اپنے اس بے مثال فقرے کے ذریعے للکارا کہ میاں صاحب آپ دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘ میں آپکا دھماکہ کردوں گا۔ انہوں نے دل کے تین بائی پاس اپریشن کرانے کے باوجود جس جواں ہمت اور بلند عزم کے ساتھ آبرومندی والی اپنی زندگی کے 86 برس گزارے جس میں انکی صحافت کے 72 اور ادارت کے 52 سال بھی شامل ہیں‘ وہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے پیشہ صحافت میں جہاں اپنے برادر بزرگ حمید نظامی کے روشن اصولوں کی آبیاری کی وہیں انہوں نے بامقصد اور اصولی صحافت کے تحفظ و فروغ میں ثابت قدمی کی نئی مثالیں قائم کرکے امامِ صحافت اور آبروئے صحافت کا درجہ بھی حاصل کیا۔
انہوں نے اپنی عمر فانی کے آخری لمحے تک اپنی ذات اور نوائے وقت کے خاندان کے ساتھ کیا گیا عہد پوری ثابت قدمی کے ساتھ نبھایا اور پیشہ صحافت کو پیشہ¿ پیغمبری ثابت کرکے دکھایا۔ انکے برادر بزرگ حمید نظامی نے قائداعظم کے فرمان پر 23 مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی متعصب ہندو پریس کا مقابلہ کرنے کیلئے پندرہ روزہ ”نوائے وقت“ کی شکل میں جس بااصول و باوقار صحافت کا آغاز کیا تھا‘ ایوبی مارشل لاءمیں انکے انتقال کے بعد جناب مجید نظامی نے اسکی باگ ڈور سنبھال کر اسے مرحوم حمید نظامی کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ ایک تناور درخت بنا کر میدان صحافت میں جلوہ افروز کیا۔ چنانچہ انگریزی اخبار ”دی نیشن“ ”ہفت روزہ ندائے ملت“ ”فیملی میگزین“ ماہوار ”پھول میگزین“ اور ”وقت ٹی وی چینل“ کی صورت میں اس سے پھوٹنے والی کونپلیں بھی آج چار دانگ عالم میں اپنی روشنی کی کرنیں بکھیر رہی ہیں۔ جناب مجید نظامی کے ہاتھوں ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرنیوالی یہ صحافتی امپائر آج ملکی صحافت کا بھرم بن چکی ہے۔
ہر آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا چلن انہوں نے ایوبی آمریت میں ہی اختیار کرلیا تھا۔ جب ایوب خان کے چہیتے گورنر مغربی پاکستان اور جلالی نواب آف کالاباغ امیرمحمد خان جناب حمید نظامی کی وفات پر اظہار تعزیت کیلئے جناب مجید نظامی کے پاس آئے تو انہوں نے جناب مجید نظامی کو یہ کہہ کر ڈراوا بھی دیا کہ اوپر خدا ہے اور نیچے ایوب خان ہے۔ وہ صبح نوائے وقت بند کرنے کا کہیں گے تو میں ایک منٹ نہیں لگاﺅں گا۔ پھر کہا کہ آپ حمید نظامی کے جانشین ہو اس لئے آپ انکی پالیسی پر نہیں چلو گے تو آپ ”جَنا“ نہیں ہوگے ۔جس پر جناب مجید نظامی نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ میں آپ کو ”جَنا“ بن کے ہی دکھاﺅں گا۔ چنانچہ جناب مجید نظامی نے باوقار صحافت کے ساتھ عمربھر یہ عہد نبھا کر دکھایا۔ ایوب خان نے بعض اخبارات پر پابندی عائد کی تو اخباری مدیران کا ایک وفد معافی کی درخواست لے کر انکے پاس گیا۔ ایوب خان نے رعونت بھرے لہجے میں انہیں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ آپ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں۔ اس پر نوائے وقت کے نوجوان مدیر مجید نظامی اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور ایوب خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو مجھے اپنے آپ پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ انکی اس بات پر محفل میں سناٹا طاری ہو گیا اور ایوب خان نے محفل برخاست کردی۔ انہوں نے یحییٰ خان کے مارشل لاءکو بھی چیلنج کیا اور انکے دور میں رونما ہونیوالے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ پر انہیں کبھی معاف نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا انکے دوستوں میں شمار ہوتا تھا مگر جب انہوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر سول آمریت مسلط کی تو جناب مجید نظامی نے انہیں بھی نہیں بخشا۔ جب جنرل ضیاءالحق نے انکی حکومت کا تختہ الٹا کر مارشل لاءنافذ کیا تو نوائے وقت کے صفحات پر جناب مجید نظامی اس مارشل لائی اقتدار کیخلاف گرجتے نظر آئے۔ ایک بار ضیاءالحق نے انہیں اپنے ہمراہ بھارت لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو جناب مجید نظامی نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ ٹینک پر چڑھ کر بھارت جائیں تو میں تیار ہوں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں انہوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کی پاسداری کی‘ وہ پوری دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر کشمیر ہمیں کبھی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کریگا چنانچہ اپنی شہ رگ کشمیر کو بزور طاقت ہی دشمن کے خونیں پنجے سے چھڑانا ہو گا۔ اپنے اس بے پایاں جذبے کا اظہار وہ اپنے اس یادگار فقرے کے ذریعے کیا کرتے تھے کہ بے شک مجھے توپ کے آگے باندھ کر بھارت پر چلا دو‘ ہمیں کشمیر کے حصول کیلئے بھارت سے نبردآزما ہونا ہی پڑیگا۔
آج ظالم بھارتی فوجوں اور اسکے دوسرے سکیورٹی اداروں نے بالخصوص کشمیری نوجوانوں پر مظالم کے نئے ہتھکنڈوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ جس میں اب تک 56 کشمیریوں کی شہادتیں ہوچکی ہیں اور غاصب فوجوں کی پیلٹ فائرنگ سے درجنوں نوجوان کشمیری بچوں اور بچیوں کی بینائی ضائع ہوچکی ہے‘ مجید نظامی آج زندہ ہوتے تو مقبوضہ کشمیر کی اس صورتحال پر جہاں بہت مضطرب ہوتے وہیں اپنے حکمرانوں کو فعال کردار کیلئے للکارتے بھی نظر آتے۔ آج بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج ہذیانی کیفیت میں یہ بڑ ما رہی ہیں کہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا تو مجید نظامی کا یہ فلسفہ بھی ایک زندہ حقیقت بنا نظر آرہا ہے کہ کشمیر مذاکرات سے نہیں‘ زور بازو سے ہی لیا جا سکتا ہے۔ مرحوم مجید نظامی ملکی اور قومی معاملات میں کمال درجے کی بصیرت رکھتے تھے اور بزلہ سنجی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے پر آصف علی زرداری کو ”مردِحر“ کا خطاب دیا تھا تاہم انکے دور حکومت میں جب انکی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی داستانیں عام ہوئیں تو انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ نکتہ آفرینی کی کہ انہوں نے آصف علی زرداری کو مردحر کا خطاب جیل کاٹنے پر دیا تھا‘ جیب کاٹنے پر نہیں۔ جناب مجید نظامی مشرف کی جرنیلی آمریت کیخلاف بھی پوری ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انکی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو بھی کبھی خاطر میں نہ لائے۔ جنرل مشرف نے امریکی نائن الیون کے بعد اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کے بعد اخباری مدیران کو مشاورت کیلئے بلایا اور جناب مجید نظامی کے ایک سخت سوال پر ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ میری جگہ پر ہوتے تو کیا کرتے جس پر جناب مجید نظامی نے انہیں بلاتوقف جواب دیا کہ میں آپکی جگہ پر کیوں ہوتا‘میں اپنا کام کررہا ہوں۔ آپ بھی اپنا کام کررہے ہوتے تو آپکو یہ مشکل پیش نہ آتی۔ اصل خرابی ہی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی کے دل میں اپنی اصل جگہ چھوڑ کر پرتعیش اور اختیارات والی جگہ پر جانے کا خناس پیدا ہوتا ہے۔ مشرف نے بھی انکے اس فقرے پر برافروختہ ہو کر مدیران کی نشست برخاست کردی۔
آج انکی دوسری برسی پر انکی یاد تازہ رکھنے اور انکے مشن کو آگے بڑھانے کے عزم کے ساتھ نوائے وقت اور دی نیشن نے اپنی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جبکہ ”وقت نیوز“ نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے خصوصی پروگرام پیش کررہا ہے۔ اسی طرح نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے بھی چار روزہ خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا ہے جن کا آج 26 جولائی سے آغاز ہو رہا ہے۔ آج مرحوم مجید نظامی کی برسی کے موقع پر مرحوم کی مرقد اور اقامت گاہ پر قرآن خوانی اور خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے مرحوم مجید نظامی کی یادیں تازہ کرنے کا سلسلہ 29 جولائی تک جاری رہے گا۔ خداوند کریم سے مجید نظامی کی بلندی¿ درجات کی دعا کے ساتھ ساتھ ادارہ نوائے وقت کا قارئین نوائے وقت اور قوم کیلئے یہ پیغام ہے کہ اپنے معمار مجید نظامی کے تابناک و اصولی صحافت کے مشن پر کاربند رہنے اور انکی جلائی شمع کو روشن رکھنے کے عزم کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیا جائیگا۔ آج مجید نظامی کی برسی کے موقع پر وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا یہ بیان بھی کشمیر کاز انکے موقف کو تقویت پہنچاتا اور قومی جذبات کی ترجمانی کرتا نظر آرہا ہے کہ آج یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا وقت آگیا ہے۔ خدا کرے کہ حکومت اس عزم پر کاربند بھی رہے۔ ہم کشمیر کاز کیلئے مجید نظامی کا مشن بہرصورت آگے بڑھاتے رہیں گے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔