وزیراعظم نوازشریف کا تنازعۂ کشمیر میں کشمیریوں کے اہم فریق ہونے کا مضبوط موقف اور بھارتی ہٹ دھرمی کا تسلسل----- ہم خارجہ امور کی بہتر حکمت عملی سے بھارت کو عالمی دبائو میں رکھ سکتے ہیں
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کے بغیر بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات بے سود ہونگے۔ دونوں ممالک کے مابین مذاکرات میں کشمیری رہنماء تیسرا فریق نہیں بلکہ وہ اس مسئلہ پر کسی بھی قسم کی بات چیت کے اہم فریق ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کشمیری رہنمائوں کی آراء اور انکے مشورے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ کابینہ کے اجلاس میں ایل او سی پر بھارتی جارحیت کا معاملہ عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بھارت کی جانب سے شرائط عائد کرکے مذاکرات کا عمل معطل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے پاکستان بھارت مذاکراتی عمل کی منسوخی سے متعلق کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی مرضی کے ایجنڈا کے تحت بات چیت کا فائدہ نہیں تھا‘ ہم بھارت کی ڈکٹیشن کسی صورت قبول نہیں کر سکتے اور نہ ہی کشمیر کے موقف سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کیلئے غیرمشروط تیار ہے۔
بھارت کی شروع دن سے ہی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی نیت ہے نہ وہ اس میں مخلص ہے جبکہ یہ مسئلہ تو اس کا اپنا پیدا کردہ ہے اور اس ایشو پر عالمی اداروں اور اقوام عالم میں اسکی پوزیشن ہمیشہ کمزور رہی ہے۔ اسکی اصل سازش پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر مستقل تسلط جما کر پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی ہے جس کیلئے وہ اب تک طاقت کے استعمال سمیت مختلف ہتھکنڈے اختیار کر چکا ہے اور وہ دنیا کا دبائو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے محض اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر پوری دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہے۔ تنازعہ کشمیر پر بھارتی موقف کی کمزوری پر تو یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی چھ الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرکے مہرتصدیق ثبت کردی تھی جبکہ کشمیر کا کیس خود جواہر لال نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے۔ اگر بھارت کسی مذاکراتی فہم و دانش کی بنیاد پر یہ مسئلہ حل کرنے میں مخلص ہوتا تو یو این قراردادوں کے بعد اسکے پاس کشمیر میں استصواب کا اہتمام کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا مگر وہ ڈھٹائی کے ساتھ یو این قراردادوں سے ہی منحرف ہو گیا اور اپنے فوجی تسلط میں رکھی گئی مقبوضہ وادی کو آئین میں ترمیم کرکے جبراً بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ اسی بنیاد پر بھارتی لیڈران کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر آج تک کاربند ہیں اور دنیا کے سامنے کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تمام متنازعہ ایشوز پر مذاکرات کا متعدد بار عندیہ دینے کے باوجود وہ محض کشمیر کے تذکرے پر مذاکرات کی کوئی بھی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دیتے۔
اگر بھارت کشمیر پر تسلط جمائے رکھنے کی خاطر پاکستان پر تین بار جنگی جارحیت کا مرتکب ہو چکا ہے‘ اسے دولخت کرچکا ہے اور اب اسی کشمیر پر تسلط جمائے رکھنے کی خاطر وہ باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کے بھی درپے ہے جس کیلئے بالخصوص بی جے پی کے حالیہ اقتدار میں سرحدی کشیدگی اور جنگی جنونیت انتہاء کو پہنچادی گئی ہے تو اس سے توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اسکے ساتھ اس مسئلہ کے حل کیلئے سیدھے سبھائو بات کرلے گا اور کسی قابل قبول حل پر آمادہ ہو جائیگا۔ وہ تو محض دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کشمیر سمیت تمام تنازعات پر مذاکرات کی بات کرتا ہے اور درحقیقت وہ کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے انہیں بھارت کے ساتھ الحاق قبول کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ اپنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے دوران کشمیری عوام نے حریت لیڈروں کی قیادت میں اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کا نذرانہ تو پیش کر دیا ہے اور بھارت کا ہر ریاستی جبر تو برداشت کرلیا ہے مگر اپنے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آنے دی۔ کشمیریوں کے اس عزم و استقامت سے ہی بھارت خوفزدہ ہے اور انہیں استصواب کا حق دینے سے گریزاں ہے کیونکہ استصواب کا فیصلہ بھارتی لیڈران کو دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے۔
یہ بھارتی ہٹ دھرمی یقیناً اقوام عالم سے ڈھکی چھپی نہیں‘ دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کا بھی بخوبی علم اور ادراک ہے جس کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور خود یو این فوجی مبصرین کی رپورٹیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے ریکارڈ پر ہیں اور پاکستان پر بار بار جارحیت کے ارتکاب اور اس حوالے سے آئندہ کے بھارتی عزائم بھی عالمی برادری کے نوٹس میں ہیں جن کی بنیاد پر علاقائی اور عالمی امن کو خطرہ محسوس کرکے یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون‘ امریکی صدر اوبامہ‘ عوامی جمہوریہ چین کے صدراور یورپی یونین سمیت متعدد عالمی قیادتیں اور ادارے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں مگر بھارت نے ہر پیشکش رعونت کے ساتھ ٹھکرائی ہے تو اقوام عالم کو اس حوالے سے بھارتی عزائم کا بخوبی ادراک ہے۔ اس بنیاد پر بھارت انتہائی کمزور وکٹ پر کھڑا ہے اور ہم اپنی فہم و فراست اور بہتر حکمت عملی کے تحت عالمی فورموں پر اسکی وکٹ اڑا سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتی قیادتوں کی جانب سے کشمیر ایشو پر کمزور بھارتی پوزیشن کو کبھی اپنے حق میں کیش کرانے کی کوشش نہیں کی گئی اور اسکے برعکس ایسے کمزور پہلو چھوڑ دیئے جاتے ہیں کہ بھارت کو اس سے فائدہ اٹھانے اور کشمیر پر اپنی ہٹ دھرمی قائم رکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے تو کشمیریوں کو استصواب کا حق دیکر مسئلہ کشمیر میں نہ صرف کشمیریوں کی فریق کی حیثیت اجاگر کی تھی بلکہ مسئلہ کشمیر کا قابل عمل اور پائیدار حل بھی پیش کر دیا تھا جبکہ ان یو این قراردادوں پر ہی ہمارا مضبوط اور اصولی موقف استوار ہوا ہے مگر 71ء کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے جنگی قیدی اور پاکستان کے مقبوضہ علاقے بھارت سے چھڑانے کی خاطر بھارت جا کر اندراگاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا تو اسکے تحت مسئلہ کشمیر کسی عالمی فورم پر نہ لے جانے اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی اس مسئلہ کا حل نکالنے کی بھارتی شرط بھی قبول کرلی۔ چنانچہ بھارت آج تک شملہ معاہدہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہا ہے اور کسی بھی عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھتے ہی وہ شملہ معاہدہ کا واویلا شروع کر دیتا ہے حالانکہ اس معاہدے کے بعد وہ 43 سال پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے چکمے میں گزار چکا ہے اور کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ بنا کر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرلیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ترپ کا پتہ اب اوفا مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں بھارت کے ہاتھ آچکا ہے جس میں وزیراعظم نوازشریف بھارت کے ساتھ جنگ کے بغیر امن دوستی اور تجارت کی یکطرفہ خواہش کو پاکستان کی کمزوری بنا کر پاکستان بھارت تنازعات میں کشمیر کے لفظ پر بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ مفاہمت کرآئے جبکہ بھارت نے اس اعلامیہ میں دہشت گردی کی خاتمہ کیلئے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کو فوکس کئے رکھا۔ بے شک دوطرفہ متنازعہ امور میں کشمیر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے مگر اوفا اعلامیہ میں محض کشمیر کا لفظ شامل نہ ہونے کے باعث بھارت کو قومی سلامتی کے مشیروں کے مجوزہ مذاکرات کے ایجنڈا کو ڈی ٹریک کرنے کا موقع مل گیا جو بھارتی ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں اور پوری دنیا اس وقت بھارتی چالبازیوں اور کنٹرول لائن پر اسکی جانب سے تسلسل کے ساتھ پیدا کی گئی کشیدگی کے باعث کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ بھارتی جنگی جنونیت سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کے پیش نظر عالمی قیادتیں اور ادارے اس وقت بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو بڑھانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اگر ہماری جانب سے سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کیا جائے اور وزارت خارجہ کا قلمدان خارجہ امور کی مشاق کسی شخصیت کو سونپ دیا جائے اور پھر فہم و تدبر کے ساتھ عالمی فورموں پر بھارتی چالبازیوں کا سفارتی کوششوں سے توڑ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کو دفاعی پوزیشن پر نہ لایا جا سکے۔ آخر ہم اپنے حق میں استوار اس فضا سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور ایشوز کے حوالے سے بھارت کے مقابلے میں اپنا مضبوط کیس رکھنے کے باوجود سفارتی سطح پر کیوں اس سے مات کھا جاتے ہیں۔ اس کا ہمارے دفتر خارجہ کو سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ بے شک اس وقت پاکستان نے کشمیر پر ٹھوس اور جاندار موقف اختیار کیا ہے جس کے سامنے بھارت کی پوزیشن ہیچ نظر آتی ہے مگر بھارت سے بار بار امن اور مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرکے ہمارے حکمرانوں نے اپنی پوزیشن خود ہی کمزور بنالی ہوئی ہے‘ اسی وجہ سے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی یہ درفنطنی چھوڑنے کا موقع ملا ہے کہ کشمیر کے تنازعہ میں پاکستان اور بھارت کے سوا کوئی تیسرا فریق نہیں ہے۔ آج وزیراعظم نوازشریف کو یہ احساس ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی بھی بات چیت کیلئے کشمیری ہی اہم فریق ہیں تو اب وہ اس بات کی لاج رکھیں اور آئندہ کشمیر کے تذکرے کے بغیر اوفا اعلامیہ جیسی کوئی غلطی نہ کریں۔ پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا رہے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ عالمی دبائو کے تحت بھارت کو دفاعی پوزیشن پر نہ لایا جا سکے۔