گزشتہ سال تھرمیں وبائی امراض پھیلنے اورعلاج معالجوں کی سہولیات نہ ہونے کے سبب بچوں کی ریکارڈ اموات کے بعد بھی حکومت سندھ نے ہوش کے ناخن نہیں لئے اوراب پھر سندھ میں موت کا رقص شروع ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس بار بھی غذائی قلت اورعلاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے سبب دو ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 66ہوگئی ہے یعنی روزانہ دو بچوں کی شرح جبکہ 40بچے زیر علاج ہیں۔ تھرپارکر کے 24سو دیہاتوں کی 16لاکھ آبادی کیلئے صرف 250بنیادی صحت مراکز ہیں جن میں بنیادی سہولیات ہی نہیں نہ ہی فنڈ ہیں لہٰذا اکثر سینٹر بند پڑے ہیں‘ضلع ہیڈ کوارٹر اسپتال مٹھی میں بھی ادویات نہیں ہیں حالانکہ اس کا فنڈ دوگنا کردیا گیا ہے۔ بیمار نومولود کیلئے انکیوبیٹرزصرف 10 ہیں جن میں سے 6مختلف دفاعی اداروں نے عطیہ کئے ہیں۔ اس بار ڈاکٹروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ غذائی قلت کے سبب اموات ہورہی ہیں ماﺅں کو غذا کم ملنے سے نومولود کمزور اوربیمار ہونے کے سبب مرجاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا موقف اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے کیونکہ گزشتہ سال حکومت نے یہی موقف اختیار کرکے جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ غذائی قلت پر قابو پانا کس کی ذمہ داری ہے کیا حکومت کا فرض نہیں کہ وہ اس مسئلہ پر قابو پائے اورغذائی قلت دورکرے‘ علاج معالجہ کی سہولیات بہم پہنچائے اوربنیادی صحت مراکز کو فعال کرکے ان کی تعداد بڑھائے اگر ابھی سے انتظامات نہ کئے گئے تو حالات گزشتہ برس سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں جو حکومت اورخصوصاً حکمراں سیاسی جماعت کیلئے کسی طورپر بہتر نہیں ہونگے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024