ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی...... کابل کا اتحادی افواج کے افغانستان میں مزید ایک سال قیام کا معاہدہ
آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
پاکستانی سرحد کے قریب افغان صوبہ پکتیا میں گزشتہ روز والی بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ کے دوران خودکش دھماکہ سے پچاس شائقین جاں بحق 70 زخمی ہو گئے۔ یہ 2001ءکے بعد افغانستان کا مہلک ترین دھماکہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اس دھماکے میں انسانی جانوں کی ہلاکتوں پر دلی افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے اس خودکش دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دوسری طرف افغان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے دو سکیورٹی معاہدوں کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت آئندہ سال 2015ءکے اختتام تک اتحادی اور امریکی افواج افغان سرزمین پر رہیں گی۔
اگرچہ امریکی نیٹو افواج کی مجموعی تعداد میں سے ساڑھے بارہ ہزار افواج کو مزید ایک سال تک افغانستان میں موجود رکھنے کا مقصد ان کے ذریعے افغان فوجیوں کی تربیت کا بتایا گیا ہے تاہم یہ فیصلہ بادی النظر میں نیٹو فورسز کی آئندہ ماہ کے اختتام تک افغانستان سے مکمل واپسی کے بعد افغانستان میں انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں کے منظم ہونے کے خدشہ کے پیش نظر کیا گیا ہے جس کے لئے سابق افغان صدر کرزئی نے بھی امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور پاکستان کی جانب سے بھی کابل کو باور کرایا جاتا رہا ہے کہ نیٹو فورسز کے مکمل انخلا سے اس کے لئے امن و امان کی صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو گا اس لئے مکمل امن و امان تک امریکی افواج افغانستان میں رہنی چاہئیں۔ اس میں کوئی دو آراءنہیں کہ پاکستان کا امن و امان بھی افغانستان کے امن و امان کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اسی تناظر میں نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد دہشت گردوں سے اس خطہ کو پاک کرنے کے لئے پاک افغان باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے اور افغان صدر اشرف غنی کے اسلام آباد اور جی ایچ کیو کے دورے کے دوران بھی دہشت گردی کے تدارک کی مشترکہ حکمت عملی پر ہی اتفاق ہوا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکی اتحادی فورسز کے افغانستان میں مزید ایک سال قیام کا معاہدہ کیا گیا ہے تو اس عرصے کے دوران کابل انتظامیہ کو اتحادی فورسز پر تکیہ کئے رکھنے کے بجائے پاکستان کی معاونت سے خطہ میں قیام امن کی جامع حکمت عملی طے کرکے اس پر عملدرآمد کا آغاز کر دینا چاہئے بصورت دیگر پکتیا کا خودکش دھماکہ دہشت گردوں کے آئندہ کے عزائم کی عکاسی کر رہا ہے۔