اب امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرنا ہی ہمارے مفاد میں ہے ٹرمپ کی پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز اور ہماری سلامتی کے تقاضے
امریکی ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگرس کو سالانہ بجٹ میں پاکستان کیلئے فوجی ہارڈویئر کیلئے دی گئی گرانٹ قرض میں تبدیل کرنے کی تجویز دیدی ہے۔ اس سلسلہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسودہ تیار کرکے کانگرس کو بھجوا دیا گیا ہے۔ وائٹ ہاﺅس کے مطابق بیرونی ممالک کو پروگراموں اور امداد کی مد میں دی گئی رقوم میں پاکستان کو دی گئی فوجی امداد بھی شامل ہے جسے قرضے میں تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ امریکہ نے آئندہ سال کے دفاعی اخراجات کیلئے 603‘ ارب ڈالر مختص کئے ہیں جو گزشتہ برس سے تین فیصد زیادہ ہیں۔ تجاویز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ محکمہ خارجہ اور دیگر عالمی پروگراموں پر آئندہ سال 29.1 فیصد کم (115‘ ارب ڈالر) کا بجٹ استعمال کریگی۔ وائٹ ہاﺅس میں مینجمنٹ اور بجٹ کے ڈائریکٹر مکی ملوینی نے اس سلسلہ میں بتایا کہ امریکہ براہ راست بہت سے غیرملکی فوجی امداد کے پروگراموں کو قرضوں میں بدل دیگا تاہم اس حوالے سے اسرائیل اور مصر کو دی گئی امداد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی غیرملکی گرانٹ سے پاکستان‘ تیونس‘ لبنان‘ یوکرائن‘ فلپائن اور ویت نام متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے 2015ءمیں اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کو 13.5‘ ارب ڈالر امداد دی تھی جس میں زیادہ تر امداد اسرائیل‘ مصر‘ اردن‘ پاکستان اور عراق کو دی گئی جسے اب بعض ممالک کیلئے قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ کانگرس ریسرچ سنٹر کے مطابق امریکی کانگرس ٹرمپ کی یہ تجویز مسترد کرسکتی ہے۔ وائٹ ہاﺅس کے ڈائریکٹر کے بقول پاکستان کی امداد کم کردی جائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ پاکستان کو پیسہ نہیں‘ صرف گارنٹی دیگا‘ پاکستان کو 2015ءمیں ساڑھے 13‘ ارب ڈالر کی فوجی امداد دی گئی تھی جو کم کرکے قرضوں میں تبدیل کی جائیگی۔
بانی ¿ پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد بدقسمتی سے ہماری قومی خارجہ پالیسی کی سمت ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کی روشنی میں متعین نہ ہوسکی اور ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے سوویت یونین کے دورے کی دعوت ٹھکرا کر اپنا پہلا غیرملکی دورہ امریکہ کا کیا تو اسکے ساتھ ہی ہمارا جھکاﺅ امریکہ کی جانب ہوگیا۔ اس وقت سے اب تک ہم نے ہر سردگرم میں امریکہ کا ساتھ نبھایا ہے اور امریکی نائن الیون کے بعد ہمارے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے قومی سلامتی و خودمختاری عملاً امریکہ کے پاس گروی رکھوا دی جبکہ امریکہ نے ہماری بے لوث دوستی اور تعاون پر کبھی ہمارے جذبے جیسا ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے بے پایاں تعاون اور قربانیوں کے باوجود امریکہ ہمارے کردار پر تحفظات کا اظہار اور ”ڈومور“ کے تقاضے کرتا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سے جو بھی برسراقتدار رہا اس کا ہمارے ساتھ تعلقات کا سلسلہ گرمجوشی کے بجائے سردمہری کی ہی عکاسی کرتا رہا۔ 71ءکی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے ہمیں فوجی امداد کیلئے ساتواں بحری بیڑہ بھجوانے کا چکمہ دیا مگر پاکستان اس بحری بیڑے کا منتظر ہی رہا جبکہ بھارت نے ایک گھناﺅنی سازش کے تحت مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے دوچار کردیا۔ اسی طرح سوویت یونین کے ساتھ امریکی سرد جنگ کے دوران جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کا سارا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈال دیا اور روسی فوجوں کی مزاحمت کیلئے افغان مجاہدین کی پوری کھیپ تیار کرکے امریکہ کو بطور کمک فراہم کی۔ پاکستان کے اس کردار کے باعث امریکہ کو سردجنگ میں سرخروئی حاصل ہوئی اور سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے مگر امریکہ نے اس کا صلہ پاکستان کو افغان مجاہدین کی سرپرستی چھوڑ کر دیا جو روپے پیسے اور اسلحہ کی ریل پیل کی پڑی ہوئی لت کو برقرار رکھنے کیلئے سرکشی کی راہ پر چل نکلے۔ انہی مجاہدین نے القاعدہ اور طالبان کا روپ اختیار کیا تو سردجنگ والے یہ حلیف امریکہ کیلئے دشمن بن گئے اور اسی ناطے سے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا کردار بھی مشکوک ٹھہرا۔
امریکہ کی ہمارے ساتھ طوطا چشمی ہر حوالے سے ہمارے لئے چشم کشا رہی ہے۔ بھارت سوویت یونین کا اتحادی ہونے کے ناطے بدترین سامراج دشمن رہا ہے‘ اسکے باوجود امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کیخلاف 65ءاور 71ءکی جارحیت پر بھارت کے کان مروڑنے کیلئے پاکستان کو امداد فراہم نہ کی اور جب بھارت نے 1974ءمیں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو امریکہ نے اس پر اقتصادی پابندیاں لگوانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اسکے برعکس جب پاکستان نے بھارتی جارحانہ عزائم کے توڑ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور 28 مئی 1998ءکو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے تو امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے اپنے اس اتحادی پر بدترین اقتصادی پابندیاں لگوا دیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل کرکے اپنے مفادات اسی امریکہ کے ساتھ وابستہ کرلئے جس کیخلاف وہ سامراج مردہ باد اور مرگ بر امریکہ کے نعرے لگوایا کرتا تھا۔ اسی تناظر میں امریکہ نے ایٹمی عدم پھیلاﺅ کی پالیسی میں پاکستان اور بھارت کیلئے الگ الگ معیار مقرر کیا۔ بھارت کی ایٹمی پھیلاﺅ پر سرپرستی کی اور پاکستان کو گردن زدنی قرار دیا۔ شومئی قسمت کہ 2001ءمیں امریکہ ایک بڑی دہشت گردی کا شکار ہوا جسے امریکی نائن الیون سے تعبیر کیا گیا تو پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے بھی معتوب ٹھہرا اور اسے القاعدہ اور طالبان کی شکل میں موجود انہی دہشت گردوں کی سرپرستی کا موردالزام ٹھہرایا گیا جو امریکی چھتری کے نیچے پل بڑھ کر دہشت گردی کی راہ پر آئے تھے۔ ان دہشت گردوں کو پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی فنڈنگ اور سرپرستی حاصل تھی جبکہ امریکہ نے بھارت کی سرکوبی کے بجائے اسے اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اسکے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے لاتعداد معاہدے کرلئے جن کے تحت اسے ہرقسم کا جدید اور روایتی اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرکے اسے علاقے کا تھانیدار بنانے کی سازش کی گئی جو درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازش تھی۔ جب پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے امریکہ سے اسکے ساتھ بھی بھارت جیسا ایٹمی دفاعی تعاون کا معاہدہ کرنے کا تقاضا کیا تو امریکہ نے ٹھینگا دکھا دیا جس پر پاکستان کو مجبوراً چین کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرنا پڑے۔ امریکہ نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی کے معاہدے میں بھی ڈاج کیا جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں کو تقویت پہنچانے کے مترادف تھا۔
پوری دنیا اس امر کی شاہد ہے کہ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے اپنے بھاری جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں بے پناہ قربانیاں دی ہیںجبکہ پاکستان اپنے اس کردار کے ردعمل میں ہی بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا نتیجتاً ہمارے دس ہزار کے قریب سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں سمیت ملک کے 60 ہزار سے زائد بے گناہ شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ امریکہ نے اپنے فرنٹ لائن اتحادی کی ان قربانیوں کے عوض اتحادی سپورٹ فنڈ میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر سول اور فوجی امداد کی منظوری دی جو درحقیقت پاکستان کے بے بہا نقصانات کی معمولی سی تلافی تھی مگر پھر اس امداد کو بھی کڑی شرائط کے ذریعے دودھ میں ڈالی ہوئی مینگنیاں بنا دیا گیا۔ ڈیموکریٹ اوبامہ کے دور حکومت میں کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کی فوجی امداد کے استعمال پر کڑی شرائط کے پہرے بٹھائے گئے اور اسکے ذریعے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ پھر اس امداد میں کٹوتی بھی کردی گئی۔ اسی طرح پاکستان کی سول امداد کو بھی امریکی کانگرس میں بالخصوص ری پبلکنز ارکان کی جانب سے پابندیوں کی زد میں لانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور اوبامہ کے دوسرے دور کے آخری ایام میں ری پبلکن ارکان کی اکثریت کے بل بوتے پرامریکی کانگرس میں پاکستان کی فوجی امداد میں کٹوتی کا بل منظور بھی کرلیا گیا جسے اوبامہ نے بطور صدر ویٹو کرنے کا عندیہ دیا مگر ان کا یہ ارادہ نقش برآب ثابت ہوا۔
اگرچہ ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سے کوئی بھی پاکستان کا خیرخواہ نہیں رہا تاہم ری پبلکن پارٹی کی پالیسیاں ہمیشہ پاکستان کو راندہ¿ درگاہ بنانے والی ہی رہی ہیں۔ اس تناظر میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کیلئے امریکی سختیوں کا آغاز فطری امر تھا جو اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر ملبہ ڈالنے میں پیش پیش رہے ہیں اور اس طرح وہ عملاً بھارتی عزائم کو تقویت پہنچاتے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے فوجی سازوسامان کی بنیاد پر ہمارے دفاع کا انحصار امریکی فوجی امداد پر ہی ہے جس کے تحت ہمیں جو اسلحہ ملتا ہے‘ چین کا اسلحہ اس کا متبادل نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کو جدید ٹیکنالوجی والے اسلحہ کی تیاری میں چین پر برتری حاصل ہے۔ چنانچہ ٹرمپ نے پاکستان کی فوجی امداد کو قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز دی ہے تو درحقیقت یہ تجویز پاکستان کیلئے امریکی اسلحہ کی خریداری کے آگے بند باندھنے والی ہے۔ یہ عملاً پاکستان کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اسے بھارت کے آگے پھینکنے کی امریکی پالیسی ہے جو امریکہ کی خاطر دی گئی ہماری بیش بہا جانی اور مالی قربانیوں کا صلہ ہے۔ اس امریکی طوطاچشمی پر ہم نے اب اسکے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں کیا پالیسی اختیار کرنی ہے‘ یہ ہماری حکومت کیلئے سنجیدہ سوچ بچار کی متقاضی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ریاض میں منعقدہ سربراہی کانفرنس میں پہلے ہی پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے ساتھ انتہاءدرجے کی بے اعتنائی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
فوجی امداد کو قرضے میں تبدیل کرنیوالی ٹرمپ کی تجویز کا اگرچہ متعدد دوسرے ممالک پر بھی اطلاق ہوگا تاہم بھارت اور اسرائیل اس سے مبرا ہیں جو امریکی فوجی امداد کی قرضے میں تبدیلی کی پالیسی کی زد میں نہیں آئینگے۔ چنانچہ بادی النظر میں امریکی پالیسی سیدھی سیدھی پاکستان دشمنی پر مبنی ہے کیونکہ اس سے جہاں ہمارا دفاعی نظام کمزور ہوگا وہیں ہمارے دشمن بھارت کے ہماری سلامتی کیخلاف حوصلے مزید بلند ہونگے۔ اس تناظر میں حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار کیونکر برقرار رکھا جائے۔ بہتر ہے اب ملک کی قومی خارجہ پالیسی کو خالصتاً قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے خود کو امریکی پلڑے سے نکال لیا جائے۔ آج خطے میں چین‘ روس اور پاکستان کے اتحاد کی فضا استوار ہو رہی ہے تو اسے مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ بھارت کی جانب سے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ اور توڑ کیا جاسکے۔