دو برادر مسلم ممالک کا ہمارے دشمن کیساتھ چاہ بہار پورٹ کیلئے اتفاق
ایران کے صدر حسن روحانی، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پیر کے روز تہران میں ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے افغانستان ’’ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ کی سہولت مہیا کرنے کے لئے سہ فریقی معاہدہ پر دستخط کئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت چاہ بہار بندرگاہ پر تینوں ملک سرمایہ کاری کریں گے اور اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس موقع پر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ تینوں ممالک کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے آج کا دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آج تہران، دہلی اور کابل سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ خطے کے ملکوں کی ترقی کی راہ باہمی تعاون اور وسائل کے مشترکہ استعمال سے ہی آگے جاتی ہے۔ اس موقع پر بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ دنیا کو جوڑنا چاہتے ہیں لیکن خطے کے ملکوں میں رابطہ ہی ترجیح ہونی چاہئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ آج چاہ بہار سے آغاز ہو رہا ہے لیکن اس کا اختتام وسیع پیمانے پر ترقی اور اقتصادی ثقافتی تعاون پر ہو گا۔ افغان ویب سائٹ کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی نے باور کرایا کہ چاہ بہار محض معاشی معاہدہ نہیں بلکہ یہ سیاسی سمجھوتہ بھی ہے۔ 23مئی تاریخی دن ہے جسے ہر سال بطور یوم چاہ بہار منایا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے چاہ بہار پورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر پچاس کروڑ ڈالر تک سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جبکہ ایران کے ساتھ متعدد دیگر منصوبوں پر بھی سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کرنے کے 12معاہدے کئے گئے ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق بھارت نے پاکستان چین اقتصادی راہداری کا جواب لانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ’’رائٹرز‘‘ کے مطابق بھارتی وزیراعظم مودی کا دورہ تہران پندرہ سال بعد کسی بھی بھارتی رہنما کا پہلا دورہ ہے۔
چاہ بہار پورٹ کے لئے سہ ملکی مشترکہ سرمایہ کاری درحقیقت مودی کے تخریبی ذہن کی ہی اختراع ہے جنہوں نے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کے لئے دونوں ممالک میں معاہدہ طے پاتے ہی ہذیانی کیفیت میں اس منصوبے کی مخالفت شروع کر دی تھی اور پھر وہ اسے سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف کار نظر آئے۔ اسی تناظر میں انہوں نے ایران کو چاہ بہار پورٹ کی مشترکہ سرمایہ کاری کے تحت تعمیر کی پیشکش کی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بھی عین اس وقت دہلی مدعو کرکے انہیں چاہ بہار پورٹ سے مستفید ہونے پر قائل کر لیا جب پاکستان اور افغانستان کے مابین عرصہ دراز کے ناسازگار تعلقات میں بہتری کے لئے پیش رفت ہو رہی تھی اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے اشرف غنی کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ حکمت عملی پر آمادہ کر لیا تھا۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی تو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ اس نے تقیسم ہند کے ایجنڈہ کے تحت تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کو روز اول سے ہی تسلیم اور قبول نہیں کیا تھا چنانچہ اس نے پاکستان کی سالمیت اور آزادی و خودمختاری کو کمزور کرنے کا پہلے دن ہی ایجنڈہ طے کر لیا۔ اس تناظر میں اسے پاکستان کے اقتصادی طور پر مستحکم ہونے کا اس کے ساتھ کوئی بیرونی معاہدہ قبول نہیں ہوتا اور اس حوالے سے پاکستان کا جس ملک کے ساتھ بھی سلسلہ جنبانی شروع ہوتا ہے وہ اقتصادی دفاعی تعاون کی متعدد پیشکشیں لے کر اس ملک کے دروازے پر جا پہنچتا ہے اور اسے پاکستان کے ساتھ تعاون کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی پاکستان کی ترقی اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کا جال پھیلاتا رہتا ہے جس کی پوری تاریخ موجود ہے۔ اس صورتحال میں بھارتی مکارانہ چالوں اور سازشوں کا توڑ کرنے کی ذمہ داری تو ہماری قیادتوں پر ہی عائد ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے سابق اور موجودہ حکمران بھی بھارتی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے اس کے ساتھ دوستی بڑھانے اور تجارتی ثقافتی رشتے استوار کرنے کی فکر میں غلطاں نظر آئے ہیں جبکہ بھارت نے ہمارے حکمرانوں کے پھول بھجوانے کے جواب میں ہمیشہ ہمیں جھلسانے والے گرم ہوا کے جھونکے بھیجے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کے برعکس عوامی جمہوریہ چین نے پچاس کی دہائی کے آغاز میں ہی ہماری جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو پھر اس نے دوستی کے جذبے میں کبھی کمی نہیں آنے دی اور آج تک پاکستان چین دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی والی ضرب المثال کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ یقیناً اس بے مثال دوستی کا پس منظر بھی اس خطہ میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں جس نے ہماری سالمیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ چین کو بھی اروناچل پردیش میں افواج داخل کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی جھلک دکھائی تاہم بھارت کو وہاں سے منہ کی کھانا پڑی اس کے باوجود اس نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم ترک نہیں کئے چنانچہ اسی تناظر میں علاقائی ترقی کے علاوہ اپنی سالمیت کے تحفظ کا معاملہ بھی پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے قریب لایا اور آج پاکستان چین بے لوث دوستی دنیا کے لئے ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔ یہی پس منظر پاکستان اور چین کو گوادر پورٹ کے حوالے سے اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کی راہ پر لایا جو بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھایا چنانچہ مودی پہلے تو چین کو اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان سے برگشتہ کرنے کے لئے بیجنگ جا پہنچے تاہم وہاں سے مسکت جواب ملنے پر انہوں نے سی پیک کے اس منصوبے کو ناکام بنانے اور سبوتاژ کرنے کے لئے اپنے سازشی ذہن کا پہیہ گھمانا شروع کر دیا جسے پروان چڑھانے میں بھارت کو ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوریوں سے ہی موقع ملا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارت نے چاروں جانب سے ہمیں گھیرا ڈالا اور بیرون ملک سے ہمارے لئے اقتصادی دفاعی تعاون کا ہر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی جبکہ ہماری خارجہ پالیسی کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے لئے برادر مسلم ممالک کا اعتماد بھی مستحکم نہیں بنا سکے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس خطے کے تمام مسلم ممالک باہم شیر و شکر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی، دفاعی تعاون کی راہیں ہموار کریں تو قدرت نے ان مسلم ممالک کی سرزمین کے اندر تیل، گیس، لوہا، تانبہ اور دوسری قیمتی و نادر دھاتوں کی شکل میں اتنے وسائل فراہم کر دئیے ہوئے ہیں کہ انہیں مشترکہ طور پر بروئے کار لا کر وہ نہ صرف جستیں بھرتے ہوئے اقتصادی ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں بلکہ وہ کسی کے مرہون منت ہونے کے بجائے بیرونی دنیا کی امداد بھی کر سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے اپنے اپنے مفادات کے تابع کسی بھی مسلم ملک کو باہمی تعاون کے تحت قدرتی وسائل مشترکہ طور پر بروئے کار لانے کا آج تک احساس نہیں ہوا جبکہ مسلم امہ کے درپے لادین قوتوں کو مسلم دنیا کی مفاداتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں انتشار و افتراق سے دوچار کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ چاہ بہار پورٹ کے لئے ایران اور افغانستان کا بھارت کے ساتھ اشتراک بھی اسی کا شاخسانہ ہے اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ سعودی عرب ایران کی جانب ہمارے جھکائو پر ہمیں سبق سکھانے کے لئے بھارت سے راہ و رسم بڑھاتا ہے تو ایران بھی ہمارے ساتھ پیدا ہونے والی بدگمانیوں پر بھارت سے راہ و رسم بڑھا کر ہی ہمیں جواب دیتا ہے۔ اس تناظر میں تو بھارت نے کامیاب ترین خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کے تحت وہ ہمارے ساتھ امریکہ کی بدگمانیاں بڑھانے میں بھی کامیاب رہتا ہے اور ہماری گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سازش میں بھی اس نے ایران اور افغانستان کو اپنا شریک کار بنا لیا ہے۔ اس کی یہ سازش بھارتی ’’را‘‘ کے جاسوس کلبھوشن کی بلوچستان سے گرفتاری کے بعد بے نقاب ہوئی کہ اس نے ’’را‘‘ کا نیٹ ورک افغانستان کی سرزمین اور ایران کی چاہ بہار پورٹ تک پھیلا رکھا تھا چنانچہ اس کے اعترافی بیان کے بعد اس نیٹ ورک سے منسلک افغان جاسوس بھی گرفتار ہوئے جبکہ کلبھوشن کی ایران کے صدر حسن روحانی کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر گرفتاری اور اس کے اعترافی بیان کی تشہیر سے ایران کی ہمارے ساتھ بدگمانیاں بھی بڑھ گئیں۔
آج ہماری کج فہمیوں اور خارجہ پالیسی میں موجود کمزوریوں کا نتیجہ چاہ بہار پورٹ کی شکل میں اور برادر مسلم ممالک ایران اور افغانستان کے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ شیر و شکر ہونے کی صورت میں برآمد ہوا ہے تو کیا یہی موقع نہیں کہ ہم اپنی صفیں درست کریں، خطے کے مسلم ممالک کی بدگمانیاں دور کرنے کے عملی اقدامات اٹھائیں اور برادر چین کے ساتھ اٹوٹ دوستی میں کسی کو نقب لگانے کا موقع فراہم نہ کریں۔ اگر ہمارا دشمن ہماری سلامتی کمزور کرنے کی شروع دن کی سازشوں پر کاربند ہے اور ہمیں نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن رہا ہے تو ہمیں اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر اپنی خارجہ پالیسی کی سمت کیوں درست نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے لئے گوادر پورٹ کو ہر صورت اپریشنل کرنا اور بیرونی دنیا کو اس کی افادیت کا احساس دلانا اشد ضروری ہے۔ بھارتی سازشوں کا اب ہم پاک چین دوستی کو سی پیک کے حوالے سے بھی مثالی بنا کر توڑ کر سکتے ہیں۔