سٹیٹ بنک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد (100 بیسز پوائنٹس) کی کمی کردی ہے۔ گزشتہ 42 سال میں اب شرح سود سب سے کم سطح پر ہوگی۔ شرح سود گھٹ کر 7 فیصد ہوگئی ہے۔ اس فیصلے کا اعلان گورنر سٹیٹ بنک اشرف محمود وتھرا نے بنکس بورڈ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ اس سے کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور سرمایہ کاری پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ بزنس کی لاگت میں کمی آئے گی۔ جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوگیا ہے، اوسط سالانہ مہنگائی ہدف سے خاصی کم ہے، حقیقی جی ڈی پی نمو تھوڑی بڑھی ہے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ جاری ہے۔ ان تمام حالات کی عکاسی بین الاقوامی درجہ بندی ایجنسیوں کی جانب سے منظر نامے کے درجے میں اضافے کے حالیہ اقدام سے ہوتی ہے جس سے سرمایہ کاروںکا اعتماد مزید بڑھ گیا۔ اشرف محمود تھرا نے مزید کہا کہ آئندہ گرانی کے کم سطح پر برقرار رہنے کی عکاسی مئی 2015کے آئی بی اے اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین سروے سے ہوتی ہے۔
اسلام میں سود کو حرام قرار دیا گیاہے۔ سود کے لین دین کو اللہ سے جنگ بھی کہا گیا ہے۔ یہ جنگ ہم جاری رکھے ہیں۔ شاید اسی کے سبب ہماری معیشت میں برکت باقی نہیں رہتی۔ سسٹم ایسا پروان چڑھ چکا ہے کہ بنکوں کے ذریعے کاروبار کرنیوالوں کے لئے سود مجبوری بن گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کے خاتمے کے احکامات جاری کئے ان کے خلاف حکومت نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے۔ معروضی حالات میں مستقبل قریب میں سود کے خاتمے کا امکان نظر نہیں آتا۔ حکومت اور کاروباری لوگ موجودہ بینکنگ سسٹم کے تحت ہی حکمت عملی ترتیب دیتے اور پالیسیاں بناتے ہیں۔ میڈیا کو بھی ان حقائق کو مد نظر رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔
اقتصادی و معاشی ماہرین میں کچھ نے حکومت کی طرف سے قرضوں، ان کے استعمال اور معاشی کامیابیوں کے حوالے سے جاری کردہ اعدادو شمار کو بوگس اور غلط قرار دیا تھا۔ سٹیٹ بینک کے گورنر نے جو امید اور حوصلہ افزاءاعلانات کئے ہیں ان کی حقیقت اور صداقت بھی ماضی کی طرح سوالیہ نشان رہے گی اور خصوصی طور پر ان کے بیان میں مہنگائی میں کمی کی جو بات کی گئی ہے معروضی حالات، عام آدمی کی حالت اور میڈیا رپورٹس اس کی نفی کرتی ہیں۔
حکومت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کی اس کے ثمرات عام آدمی تک قیمتوں میں کمی کے تناسب سے نہیں پہنچے۔ اس کی ذمہ داری ذخیرہ اندوزں اور منافع خوروں پر ڈالی جاتی ہے۔ ان پر کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نیشنل گرڈ میں شامل ہونیوالی 30 فیصد بجلی فرنیس آئل سے پیدا ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اس تناسب سے کمی تو حکومت نے کرنی تھی۔ حکومت ایک ہاتھ سے بجلی کا ریلیف عوام کو دیتی ہے دوسرے ہاتھ فیول ایڈجسمنٹ وغیرہ کے نام پر واپس لے لیتی ہے یوں صارفین کے لئے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
شرح سود گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق 40 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی۔ یہ گھٹ کر 7 فیصد رہ گئی ہے۔ شرح سود میں اس قدر کمی کاروباری اداروں اور طبقوں کے لئے آئیڈیل ہے۔ عام آدمی تک اس کے ثمرات منتقل ہونگے تو حکومت کی نیک نامی ہو گی۔ حکومت اس پر بھی کڑی نظر رکھے کہ بنکوں سے قرض لینے والے کاروباری حضرات کیا عوام تک بنکوں سے ملنے والا ریلیف پہنچا رہے ہیں یا اسے اپنے منافع میں شامل کر رہے ہیں۔ عام آدمی حکومت کی اقتصادی و معاشی پالیسیاں سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا تجزیہ اپنے ماضی اور حال کے حالات کے موازنے سے کرتا ہے۔ وزیر خزانہ اور حکومت کے دیگر ماہر معیشت دان بشمول گورنر سٹیٹ بنک کے بیسز پوائنٹس میں کمی اضافہ، شرخ نمو، جی ڈی پی، زرمبادلہ اور اس کے ذخائر جیسے الفاظ اور اصطلاحیں عوام کے سر سے گزر جاتی ہیںاور شاید سٹیٹ بینک کی پالیسی عام آدمی نہیں، خاص لوگوں اور متعلقہ اداروں کے لئے ہوتی ہے مگر جس طریقے سے حکومتی پالیسیوں اور اعدادو شمار کو میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ حکومت اپنی بات ہر گھر اور فرد تک پہنچانا چاہتی ہے۔ عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آنیوالی پارٹی کی یقیناً کوشش ہوتی ہے کہ اپنی کامیابیوں سے عوام کو آگاہ رکھے۔ بعض اوقات تو اعداد و شمار کے فریب سے رائے عامہ کو اپنے حق میں گمراہ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے مگر ایسا اس لئے ممکن نہیں عام آدمی اپنی حالت کا موازنہ ماضی اور حال سے کرتے ہوئے درست نتیجے تک پہنچتا ہے مسلم لیگ ن کی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں گو عالمی مارکیٹ میں کمی کے تناسب سے بہت کم کمی کی۔ عام آدمی کو اس سے بھی کوئی لینا دینا نہیں کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کتنی کمی بیشی ہوئی۔ اسے کتنے میں پٹرول ملا وہ اس کے مطابق حکومت کی تعریف یا اس پر تنقید کرتا ہے۔ گزشتہ مہینوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چالیس روپے تک کمی کی گئی۔ اس سے براہ راست مستفید ہونے والے صارفین کو حکومت کی طرف سے اپنی کارکردگی جتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ مسلم لیگ ن کی حکومت کواس ریلیف پر خراج تحسین پیش کرتے نظر آئے۔ دوسری طرف بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ پر اسی حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ کم آمدنی والے افراد کے لئے ہاﺅسنگ سکیم لانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ کم آمدنی والے افراد نے وزیر اعظم کے اعلان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کر لیا ان کی امید برقرار رہی تو یہ مسلم لیگ ن کے اقتدار کے دوام کے لئے کوشش یا کم از کم خواہش تو ضرور کریں گے۔
گورنر سٹیٹ بینک ایک طرف مہنگائی میں کمی کے اعدادو شمار پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہفتے کے دوران 38 سبزیاں اور پھل 27 روپے کلو تک مہنگے ہو گئے۔ برائلر چند روز قبل تک 150 روپے کلو تھا آج لاہور میں اس کا ریٹ 225 روپے ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں۔ رمضان کے دوران مہنگائی کا طوفان مچ جاتا ہے۔ بیڈ گورننس کے باعث اس کے آثار ابھی سے نمودار ہو رہے ہیں۔ شرح سود کو 7 فیصد تک لانا حکومت کی کامیابی ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی۔ بزنس کی لاگت میں کمی آئے گی۔ سرمایہ کاروں کا اس اقدام سے حکومت پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔ مگر حکومت کو اس کا سیاسی فائدہ اور اس کی پذیرائی تبھی ہو گی جب اس کامیاب اقدام کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ ایسا کرنا حکومت کی آزمائش ہے اور رمضان کے قریب آنے پر واضح ہو جائیگاکہ حکومت اپنی آزمائش میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024