دشمن کا ایجنڈا ہمارے اندرونی طور پر کمزور ہونے کا تاثر ختم کرکے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہےپانچ سو فراریوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد تربت میں ریموٹ کنٹرول دھماکے سے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت
تربت کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ایف سی کے چار اہلکار اور ایک خاصہ دار شہید ہوگیا۔ اسی طرح مہمند ایجنسی میں ایف سی کی گاڑی گشت کے دوران بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں ایک ایف سی اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوا۔ انگریزی اخبار ”دی نیشن“ کی رپورٹ کے مطابق تربت دھماکے کی ذمہ داری کالعدم جنگجو گروپ بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق مندمیں ایف سی اہلکار سرچ اپریشن کے بعد واپس آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے انکی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ فرنٹیئر کور بلوچستان نے علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے سرچ اپریشن شروع کر دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے تربت میں ایف سی کی گاڑی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مادر وطن سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور شہداءکے درجات کی بلندی کیلئے دعا کی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری‘ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں‘ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور دوسرے قومی سیاسی قائدین نے بھی ایف سی کی گاڑی پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور شہید ہونیوالے ایف سی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ابھی دو روز قبل ہی پانچ سو فراریوں نے کوئٹہ میں صوبائی انتظامیہ اور سکیورٹی حکام کے آگے ہتھیار ڈالے تھے جس سے صوبائی حکومت اور ایف سی کی کوششوں سے بلوچستان کا دوبارہ امن و امان کا گہوارا بننے تاثر قائم ہوا اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی فراریوں کے ہتھیار ڈالنے اور خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدام پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس امر کا اظہار کیا کہ ہتھیار ڈالنے والے علیحدگی پسندوں نے درحقیقت بھارتی غلاموں کی سازش مسترد کی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے سدرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے بھی ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ایک عمومی اپیل کی کہ بھٹکے ہوئے لوگ واپس آئیں اور گمراہی میں ملک کو نقصان پہنچانے کے بجائے ملک کی ترقی میں حصہ لیں۔ اس دل خوش کن صورتحال کے دو روز بعد ہی مبینہ طور پر انہی علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے‘ جن کی کالعدم تنظیم بی ایل اے ریموٹ کنٹرول دھماکے کی ذمہ داری قبول بھی کرلی ہے۔ اس گھناﺅنی تخریب کاری کے ذریعے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے پر گامزن بھارتی ایجنٹ ابھی تک بلوچستان میں سرگرم ہیں جو وہاں بلوچستان حکومت اور ایف سی کی امن بحالی کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
ہمارے سکیورٹی اداروں کیلئے بلاشبہ یہ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کی ہر واردات کے بعد انکی جانب سے آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے تو اسکے ساتھ ہی ملک میں دہشت گردی کی کوئی دوسری واردات رونما ہو جاتی ہے جس سے بادی النظر میں ہمارے سکیورٹی اداروں میں سکیورٹی لیپس کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کیلئے سول اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے اڑھائی سال قبل تشکیل دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد ہو رہا ہے جس کا وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں اپنی پریس کانفرنسوں میں اکثر کریڈٹ بھی لیتے نظر آتے ہیں تو پھر کون سے ایسے عوامل موجود ہیں جو ملک کے دشمن دہشت گردوں کو انکے تخریب کاری کے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹ کئے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ ملک کا ہر شہری اپریشن ردالفساد کا سپاہی ہے اور ہمیں مل کر پاکستان کو فسادیوں سے پاک کرنا ہوگا۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاک فوج اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے پہلے ملک ہے اور اسکے بعد کچھ اور ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف کی زیرصدارت منعقد ہونیوالی کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی اپریشن ردالفساد میں اب تک ہونیوالی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے چنانچہ دہشت گردی کیخلاف سکیورٹی اداروں اور قیادتوں کی اس فعالیت پر تو قوم کو مطمئن نظر آنا چاہیے مگر سفاک دہشت گرد تو قوم کی خوشیاں چھیننے پر ہی تلے بیٹھے ہیں۔ چنانچہ دہشت گردی کے ناسور کا لگا ایک زخم ابھی بھر بھی نہیں پاتا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں قوم کو دوسرا چرکہ لگ جاتا ہے۔
دہشت گردی کی جنگ میں ہماری سکیورٹی فورسز نے بلاشبہ جرا¿ت و ہمت اور قربانیوں کی بے مثال داستانیں رقم کی ہیں جبکہ دہشت گرد ملک کے اندرونی طور پر کمزور ہونے کا تاثر پیدا کرنے کیلئے سکیورٹی کے اداروں اور ارکان کو اپنے ہدف پر رکھتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں میں سکیورٹی کے افسران اور جوانوں کی شہادتوں سے ملک میں خوف و ہراس کی فضا زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔ یہی دشمن کا ایجنڈا ہے کہ سکیورٹی کے حوالے سے پاکستانی قوم کو عدم تحفظ کی فضا سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ اس تناظر میں اسکی ہر چال اور سازش کو ناکام بنا کر ہی ملک کی سلامتی کے معاملہ میں سرخروئی حاصل کی جا سکتی ہے ورنہ تو دشمن ہمیں چیلنج پر چیلنج دیتا رہے گا۔
بلوچستان پر بھارتی ایجنٹوں کی اس لئے زیادہ توجہ ہے کہ یہاں چین کے تعاون سے قائم ہونیوالی گوادر پورٹ اور اس سے منسلک اقتصادی راہداری سے پاکستان کو اقتصادی اور دفاعی طور پر کمزور کرنے کے بھارتی سازشی منصوبے خاک میں مل رہے ہیں جبکہ سی پیک کے ذریعے عالمی منڈیوں کے ساتھ منسلک ہو کر پاکستان اقتصادی ترقی و استحکام کی جانب جستیں بھرتا نظر آئیگا تو اس سے بھارت کو اپنے سینے پر سانپ لوٹتے ہوئے نظر آئینگے۔ چنانچہ گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنا ہمارے اس مکار دشمن کی اولین ترجیح ہے۔
دشمن تو اپنے اس ایجنڈے پر تیزی سے گامزن ہے اور وہ پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کی کسی نہ کسی واردات کے ذریعے ملک کے غیرمستحکم ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے چنانچہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہونے کا ہماری فعال عسکری قیادتوں نے ہی دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس اور عملی اقدامات کرکے یقین دلانا ہے۔ ملک میں بدقسمتی سے ماضی قریب تک ایسی فضا برقرار رہی ہے جس میں ہماری عسکری قیادتوں کی فعالیت ایسے معاملات کی جانب زیادہ دکھائی دیتی رہی جو ملک میں ماورائے آئین اقدام کی فضا ہموار کرنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اگرچہ دہشت گردوں کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک کی سلامتی کے تحفظ کے معاملہ میں عسکری اداروں کو باربار دیئے جانیوالے چیلنجز کے باوجود دفاع وطن کے تقاضے نبھانے اور ملک میں دہشتگردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑنے کیلئے سول اور عسکری قیادتیں ایک صفحے پر نظر آرہی ہیں جو ملک کی سلامتی محفوظ رکھنے کا تقاضا بھی ہے۔ اسکے باوجود ملک میں دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں و سہولت کاروں کو بدستور کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے تو سول اور عسکری قیادتوں کو باہم سرجوڑ کر بیٹھنا اور اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ ملک اور قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے جلدازجلد اور مستقل طور پر کیسے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان کے معاملات پر نظر رکھنا اور وہاں بھارتی ”را“ کے نیٹ ورک پر قابو پانا اشد ضروری ہے کیونکہ بھارت یہاں ناراض بلوچوں اور علیحدگی پسندوں کے کھل کھیلنے سے اس صوبے کو پاکستان کے کمزور پہلو سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کیلئے بلوچستان کے عوام کی محرومیاں دور کرنا اور یہاں کے پسماندہ علاقوں کو ہر سہولت سے ہمکنار کرنا ہمارے وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے جس پر محض خالی خوشی نعرے نہ لگائے جائیں بلکہ ٹھوس اقدامات کے ذریعے عملیت پسندی کا مظاہرہ بھی کیا جائے۔ بھارت کو بلوچستان میں پسماندگی کیخلاف اٹھنے والی آوازوں سے ہی فائدہ اٹھانے اور علیحدگی پسندوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اگر ان علیحدگی پسند عناصر کو کمک پہنچا کر انہیں پاکستان سے علیحدگی کا راستے پر گامزن کرنے کی بڑ ماری تھی تو یہ سہولت انہیں بلوچستان میں اپنی محرومیوں سے عاجز آئے عوام کے بدلتے ہوئے تیور بھانپ کر ہی ملی تھی اس لئے محض فراریوں سے ہتھیار ڈلوانے کا کریڈٹ نہ لیا جائے بلکہ محرومیوں کا شکار پورے بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی ٹھوس حکمت عملی طے کی جائے۔ اس کیلئے سی پیک بلاشبہ سب سے زیادہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت بن سکتا ہے جس پر بلوچوں کے کوئی تحفظات ہیں تو انہیں میز پر بٹھا کر مطمئن کیا جائے۔ یہ کام سیاسی قیادتیں سرانجام دیں گی تو اس سے سسٹم کے استحکام کی بھی ضمانت مل جائیگی۔ عسکری اداروں کو بہرصورت ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک میں موجود کسی بھی خلفشار پر قابو پانے کا فریضہ ادا کرنا ہے۔ بصورت دیگر ہمارے دشمن کو ہماری اندرونی کمزوریوں کا تائر ملتا رہے گا اور وہ ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ہماری سلامتی کیخلاف سازشیں پروان چڑھاتا رہے گا۔