یو این جنرل اسمبلی کے 69ویں اجلاس میں شرکت کیلئے وزیراعظم کی امریکہ روانگی…سخت دبائو میں آئے نواز شریف کو اس اجلاس میں متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 69واں اجلاس گزشتہ روز نیویارک میں شروع ہو گیا جس میں دنیا بھر سے 120 ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت شریک ہو رہے ہیں۔ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم میاں نواز شریف کر رہے ہیں جو اس مقصد کے لئے امریکہ روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ جمعتہ المبارک کے روز جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے باضابطہ اجلاس سے قبل مختلف ممالک کے سربراہان نے سیکرٹری جنرل یو این بانکی مون سے ملاقات کی اور متعدد عالمی اور علاقائی امور پر ان سے تبادلہ خیال کیا جبکہ ان ملاقاتوں میں اجلاس کے ایجنڈے میں شامل 172 پروگرامز پر بھی غور کیا گیا۔ اجلاس میں عراق اور شام میں جاری کشیدہ صورتحال، آئی ایس (اسلامک سٹیٹ)کے تشدد، ایران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات میں تعطل کے خاتمہ اور امریکہ میں مہلک وائرس ایبولا کے پھیلائو کی روک تھام سے متعلق معاملات زیر غور آئیں گے جبکہ ملینئم ڈویلپمنٹ گولز کے 15 نکات پر مختلف ممالک کی جانب سے ہونے والی پراگریس کا بھی اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان کے لئے اس اجلاس کی اہمیت اس حوالے سے بھی زیادہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں جو امریکہ میں موجود بھارتی اور دوسری پاکستان مخالف لابی کی پراپیگنڈہ مہم کو تیز کرکے گزشتہ سال ہی کی طرح دہشت گردی کے ہر معاملہ کا پاکستان پر ملبہ ڈال کر کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے جس کے توڑ کے لئے وزیراعظم نواز شریف کو ملک کے سفارتی ذرائع بھی موثر انداز میں بروئے کار لانا ہوں گے اور خود بھی یو این جنرل اسمبلی میں اپنے 26 ستمبر کے خطاب کے دوران کشمیر اور دیگر ایشوز پر مضبوطی کے ساتھ پاکستان کا کیس پیش کرنا ہو گا۔ بالخصوص دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی 12 سال کی بیش بہا قربانیوں اور بھاری جانی و مالی نقصانات کے تناظر میں پاکستان کی سلامتی اور اس کی معیشت کی بحالی کے تقاضوں کو اس عالمی فورم پر اجاگر کرنا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملہ میں اصل بھارتی چہرے اور اس کے آئندہ کے عزائم کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہو گا۔ گزشتہ سال بھی یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارتی لابی نے پاکستان مخالف فضا ہموار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جبکہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نیویارک پہنچنے کے بعد خود بھی پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور تلخیاں بڑھانے کے لئے اوٹ پٹانگ الزام پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کی کیونکہ اس وقت بھارتی عام انتخابات کی مہم شروع ہو چکی تھی اور حکمران کانگرس پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی حریف بی جے پی کی پاکستان مخالف پراپیگنڈہ مہم کے پیش نظر سخت دبائو میں تھی۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے دو روز قبل بھارتی مہربانی کا تاثر دے کر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات کے لئے گرین سگنل دیا گیا اور پھر اس ملاقات میں بھی فوکس پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات پر ہی رکھا گیا۔ چنانچہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو جنہیں اقتدار سنبھالے اس وقت بمشکل ساڑھے تین ماہ ہوئے تھے، بالخصوص کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف کی شدومد کے ساتھ وکالت کرنا پڑی حالانکہ میاں نواز شریف بھارت کے ساتھ سازگار تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کی بحالی کے خواہاں تھے اور اس حوالے سے اپنے پرجوش بیانات کے باعث پاکستان کے بھارت مخالف مضبوط حلقوں کی ناراضگی بھی مول لے چکے تھے۔
اگرچہ حکومت پاکستان اب بھی باضابطہ طور پر بھارت کے ساتھ بہتر، خوشگوار اور سازگار تعلقات کی خواہاں ہے جس میں حکمران مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کا زیادہ عمل دخل ہے اور اسی تناظر میں بھارت کو ’’ایم ایف این‘‘ کا سٹیٹس دینے کا جذبہ ابھی سرد نہیں ہوا جس کے لئے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر اور وزیراعظم کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز شدومد کے ساتھ بیانات جاری کرتے رہتے ہیں تاہم بھارت کی مودی حکومت نے پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی تیز تر کر دیا گیا ہے جس کا اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت انسانی حقوق کے متعدد عالمی ادارے سخت نوٹس بھی لے چکے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بھارتی خبث باطن کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا۔ اس تناظر میں یو این جنرل اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں بھی بھارت کی جانب سے پاکستان کو پریشان کرنے کی حکمت عملی طے کی گئی نظر آ رہی ہے اس لئے گزشتہ سال کی طرح اب کی بار بھی نیویارک میں پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات کے امکانات معدوم ہونے کا یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان میں جاری عمران اور قادری کے دھرنوں، آپریشن ضرب عضب اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے خود بھی سخت دبائو میں ہیں۔ انہیں اپنی مخالف لابی کے اس پراپیگنڈہ کا بھی سامنا ہے کہ وہ ملک اور عوام کو گھمبیر مسائل کے دلدل میں پھنسا چھوڑ کر امریکہ روانہ ہو گئے ہیں۔ اسی طرح عمران اور قادری کا ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ امریکہ میں بھی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ چنانچہ میاں نواز شریف کے لئے موجودہ دورہ امریکہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی ان کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ درپیش چیلنجوں سے کس طرح عہدہ برا ہوتے اور عالمی فورم پر بھارت کے مقابل کس ٹھوس انداز میں پاکستان کا موقف پیش کرکے اس کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل ہوا تھا جب وہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے یو این سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہوئے جس میں بھارت کے ساتھ جنگ بندی کے لئے پاکستان پر عالمی دبائو ڈالنے کی خاطر پولینڈ کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی اور قرارداد کے متن میں ’’بنگلہ دیش‘‘ سے پاکستانی فوجوں کے فوری انخلا کا تقاضہ کیا گیا جس پر بھٹو مرحوم نے پرجوش انداز میں ہائوس میں موجود عالمی قائدین کے سامنے متذکرہ قرارداد کے پرزے پرزے کرکے ہوا میں اڑا دئیے اور ان یادگار الفاظ کے ساتھ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے باہر آ گئے کہ قرارداد میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش لکھ کر وہاں سے پاکستانی فوجوں کے انخلا کا تقاضہ کرنا پاکستان کو سرنڈر کرانے اور بنگلہ دیش کو سلامتی کونسل سے تسلیم کرانے کے مترادف ہے جس کا وہ حصہ نہیں بن سکتے۔ عالمی افق پر بھٹو کے ان الفاظ کی آج بھی گونج سنائی دیتی ہے کہ تم جانو اور تمہاری سلامتی کونسل۔ میں اپنے ہی ملک کے ایک حصہ کے شرمناک سرنڈر کا کیسے حصہ بن سکتا ہوں۔ یہی کرشماتی قیادتوں کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو ملکی سلامتی اور قومی مفادات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دیتیں۔ میاں نواز شریف نے بھی یقیناً گزشتہ سال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کا کیس مضبوطی کے ساتھ پیش کیا اور قوم اب بھی ان سے یہی توقع رکھتی ہے کہ وہ ملک کے اندرونی حالات کے باعث دبائو میں ہونے کے باوجود یو این جنرل اسمبلی کے فورم پر پاکستان کی کسی کمزوری کا تاثر پیدا نہیں ہونے دیں گے۔
جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس متعدد عالمی ایشوز کے حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس میں داعش اور آئی ایس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے علاوہ نیٹو فورسز کے اس سال کے آخر تک افغانستان سے انخلا اور اس کے بعد کی امن و امان کی ممکنہ صورتحال کا بھی جائزہ لیا جائے گا جبکہ سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک کے حال ہی میں مسترد ہونے کے تناظر میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی صدائے بازگشت بھی اس اجلاس میں سنی جائے گی۔ اسی طرح ملینئم ڈویلپمنٹ گولز کے متعینہ ایجنڈے پر پاکستان میں سرے سے عملدرآمد نہ ہونے پر بھی وزیراعظم نواز شریف کو عالمی برادری کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ ان چیلنجوں سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں یہی ان کی قیادت کا امتحان ہے۔ انہیں جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کے موقع پر ملک کی سلامتی کے خلاف بھارتی عزائم کا بہرصورت توڑ کرنا ہو گا۔