اگلے انتخابات جون 2018ء میں ہونے ہیں، رواں سال کو انتخابی سال کہا جا رہا ہے۔ انتخابی سال میں ہر پارٹی اپنی سمت درست کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ انتخابی مہم چلانے کی پلاننگ کی جاتی ہے۔ عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی حکمت عملی طے کی جاتی اور عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ کچھ پارٹیوں کی طرف سے ابھی سے ٹکٹوں کی تقسیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ چھوٹی پارٹیاں بھی اپنا وجود منوانے کیلئے اقدامات کرتی نظر آتی ہیں جبکہ بڑی پارٹیوں نے تو باقاعدہ جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ملک کے مختلف علاقوں میں جلسے کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی جلسوں میں اپنی اہمیت کا احساس دلا کرا رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے جلسوں میں مسلم لیگ ن پر چڑھائی کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن ان ایام میں خاموش ہے۔ یہ فطری امر ہے کہ کسی الزام کا جواب نہ دیا جائے تو سادہ لوح لوگ اس کو درست سمجھ لیتے ہیں جو خاموشی اختیار کرنیوالی پارٹی کیلئے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس بڑے جلسے کرنے کی پوری صلاحیت ہے مگر اس کا اظہار اندرونی اختلافات کی نذر ہو رہا ہے۔ اختلافات کوئی انہونی بات نہیں ہے، اختلافات کے باوجورد مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ پارٹی کو متحد رکھنے اور مضبوط بنانے پر متفق ہے۔ سیاسی اختلافات اول توبلاخیر ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر سردست ایسا ممکن نہیں تو بھی قومی سیاست میں عدم دلچسپی کا تاثر ختم ہونا چاہئے۔ حریف پارٹیوں کی یکطرفہ مہم مسلم لیگ ن کو شدید نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس کا مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو ادراک ہونا چاہئے۔ جمہوریت کی مضبوطی، مضبوط سیاسی پارٹیوں ہی کی مرہون منت ہے۔ میاں نوازشریف کو مسلم لیگ ن نے دوبارہ اپنا صدر منتخب کیا ہے۔ میاں نوازشریف کو صدر منتخب کر کے ہی ذمہ داری پوری نہیں ہو جاتی۔ انکی غیر موجودگی میں پارٹی کو ایستادہ کئے رکھنا بھی میاں نوازشریف کے بعد انہی لیڈروں کی ذمہ داری ہے خصوصی طور پر وہ ہاکس سامنے آئیں جو شہبازشریف اور چودھری نثار جیسے لیڈروں کو کہنیاں مار کے پیچھے ہٹاتے خود کومسلم لیگ ن کا مدار لمہام سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ میاں نوازشریف کی طرف سے موجودہ صورتحال میں فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ وہ بلاتاخیر اپنے نائبین کو حریف سیاسی جماعتوں کے بالمقابل جلسے کرنے کی ہدایت کریں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38