ایک برادر مسلم ملک کو دہشتگردی کا منبع ٹھہرا کر دہشتگردی کے خاتمہ کے مقاصد کیسے حاصل کئے جا سکتے ہیں
وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی کانفرنس میں نظرانداز ہونے کے باوجود ٹرمپ کیلئے رجائیت پسندی اور دفتر خارجہ کا مثبت موقف
وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ عالمی امن کو متاثر کرنیوالی دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کیلئے اسلامی ممالک کے مابین معاہدے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو بھی دہشت گردی کیخلاف مو¿ثر انداز میں نبزدآزما ہونا چاہیے۔ پیر کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی‘ امریکہ سربراہی کانفرنس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے سلسلہ میں اچھا اقدام ہے۔ اس کانفرنس کے مقاصد اچھے اور مثبت تھے جس کے باعث انتہاءپسندی اور دہشت گردی کیخلاف اچھے نتائج سامنے آئینگے۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے باعث تقریباً 120‘ ارب ڈالر سے زائد کے مالی نقصان اور 24 ہزار قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا‘ جس طرح مغربی دنیا دہشت گردی کیخلاف صف آراءہورہی ہے‘ اسی طرح دہشت گردی کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے مسلم امہ کو بھی متحد ہونا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف مو¿ثر انداز میں نبردآزما ہوتے ہوئے بہت حد تک اس لعنت کی روک تھام کرلی ہے۔ اس کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی غیررسمی ملاقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ یہ ایک اچھی میٹنگ تھی۔ انہوں نے ٹرمپ کے علاوہ دیگر رہنماﺅں سے بھی تبادلہ¿ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے غیررسمی گفتگو میں دہشت گردی سے متعلق موقف سے امریکی صدر ٹرمپ کو آگاہ کردیا تھا۔ دہشت گرد ایک ملک سے دوسرے ملک اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ ہمارا محور اور مقصد دہشت گردی کو ختم کرنا ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی کے ناسور کا قلع قمع ہماری بنیادی ضرورت اور اولین ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں پاکستان نے ہی دی ہیں جبکہ افغان سرزمین پر مسلسل 12 سال تک دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ لڑنے والی امریکی نیٹو افواج نے اجتماعی طور پر بھی اتنی زیادہ قربانیاں نہیں دی ہونگی۔ اس وقت دہشت گرد اور انتہاءپسند عناصر جس سرعت کے ساتھ پوری دنیا کو انتہاءپسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں لے رہے ہیں‘ اسکے پیش نظر دنیا کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کے ذریعے وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی کے امکانات مسترد نہیں کئے جا سکتے جبکہ دہشت گردوں کیخلاف سخت اپریشن کیلئے پاکستان‘ چین‘ روس‘ ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت خطے کے تمام اہم ممالک کی قیادتیں ایک صفحے پر ہیں۔ اسکے برعکس امریکہ‘ بھارت‘ برطانیہ‘ فرانس اور انکے اتحادیوں کی دہشت گردی کے خاتمہ کی اپنی حکمت عملی ہے جس میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بے بہا جانی اور مالی نقصانات اٹھانے والے پاکستان کے کردار پر امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں کے بلاجواز اور بے جا تحفظات ہیں چنانچہ امریکہ کی جانب سے افغان جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور سردمہری اختیار کی گئی اور اس سے مسلسل ”ڈومور“ کے تقاضے کئے جاتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ کے علاوہ اسکی کٹھ پتلی افغان حکومت نے بھی پاکستان کے ساتھ سخت لب و لہجے میں بات کرنا شروع کردی اور پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالتے ہوئے اسے ”نیک چال چلن“ کی بھی تلقین کی جاتی رہی۔ کابل کی سابقہ اور موجودہ انتظامیہ امریکی اشارے پر ہی پاکستان کیخلاف ہذیاتی کیفیت میں نظر آتی ہے جبکہ اصل یہی حقیقت ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی اکثر وارداتیں افغان سرزمین پر بھارتی فنڈنگ اور اسلحہ کے زور پر دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے اور پھر افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہونیوالے دہشت گردوں نے کی ہیں جس کا بھانڈا بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان کے ذریعہ پھوڑا ہے اور پاکستان کے اندر اسکی دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کے ٹھوس ثبوت اور شواہد ملنے پر اسے کورٹ مارشل کے ذریعے موت کی سزا دی گئی ہے۔
اس تناظر میں توقع تو یہی تھی دو روز قبل سعودی حکومت کی میزبانی میں ریاض میں منعقد ہونیوالی امریکی‘ سعودی اسلامی سربراہی کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمہ کی ممکنہ مشترکہ حکمت عملی کیلئے پاکستان کی قربانیوں اور اسکے عملی کردار کو فوکس کیا جائیگا اور اسکی پیش کردہ تجاویز کو ہی عملی قالب میں ڈھالا جائیگا مگر اس پر پاکستانی قوم ہی نہیں‘ اقوام عالم کو بھی سخت حیرت ہوئی کہ نہ صرف امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کا تذکرہ کرنا ضروری نہیں سمجھا اور اسکے برعکس بھارت کو دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام پر رکھا جبکہ کانفرنس کے میزبان ہمارے برادر مسلم ملک سعودی عرب نے اتنا بھی گوارا نہ کیا کہ دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے منعقدہ اس سربراہی کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو خطاب کیلئے ہی مدعو کرلیا جائے۔ اگر وزیراعظم پاکستان کو میزبانوں کے بقول وقت کی قلت کے باعث خطاب کیلئے مدعو نہیں کیا جا سکا تو یہ بھی پاکستان اور اسکے منتخب وزیراعظم کی توہین کے مترادف ہے کیونکہ انڈونیشیاءاور ملائیشیا کے صدور کو خطاب کیلئے مدعو کرتے ہوئے وقت کی قلت کا جواز آڑے نہیں آیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ دانستہ طور پر بے اعتنائی والا طرزعمل اختیار کیا گیا جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے نہ صرف اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے کردار کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ اس ملک کے منتخب وزیراعظم کو کانفرنس کے دوران نظرانداز کرنے کی حکمت عملی بھی اختیار کئے رکھی۔
اگر یہ پالیسی ایک برادر مسلم ملک ایران کیخلاف امریکہ‘ سعودی مشترکہ سوچ کے تناظر میں اختیار کی گئی ہے تو یہ اور بھی تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ اس سے دہشت گردی کے خاتمہ کے بجائے دہشت گردی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر برادر مسلم ملک سعودی عرب امریکہ کی تائید و حمایت سے دوسرے برادر مسلم ملک ایران پر دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس سے لامحالہ فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوگا جو اس خطہ میں دہشت گردی کا الاﺅ بھڑکانے پر منتج ہوگی۔ اسکے برعکس پاکستان اپنے دونوں برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین مصالحت و مفاہمت کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے اور مفاہمت کی کوششیں بروئے کار لا بھی چکا ہے۔ چنانچہ سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے ممکنہ مثبت کردار پر نتیجہ خیز گفتگو ہو سکتی تھی جس سے پاکستان کو نظرانداز کرکے گریز کیا گیا۔ اس تناظر میں پاکستان نے کانفرنس میں ٹرمپ کی سردمہری پر امریکہ سے رابطہ کرنے اور اسے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی بیش بہا قربانیوں سے آگاہ کرنے کا بجا طور پر فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت خارجہ پاکستان کے ایک سینئر افسر نے انگریزی اخبار ”دی نیشن“ سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی سردمہری نے پاکستان کو صدمے اور غصے سے دوچار کیا ہے کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں نیٹو ممالک کی افواج کی اجتماعی قربانیوں سے بھی زیادہ قربانیاں دی ہیں جنہیں امریکی صدر نے درخوراعتناءہی نہیں سمجھا جبکہ کانفرنس کے مصروف ترین ایجنڈے کے باعث سائیڈ لائن پر بھی وزیراعظم پاکستان کی صدر ٹرمپ سے باضابطہ ملاقات کا کوئی اہتمام نہیں ہو سکا تھا۔
پاکستان کیلئے سب سے زیادہ تشویشناک یہ صورتحال ہے کہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں بھارت کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دیا جبکہ وزیراعظم پاکستان کو اپنے ملک میں جاری بھارتی دہشت گردی اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکے عزائم بے نقاب کرنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ اسکے باوجود وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے امریکی صدر سے غیررسمی میٹنگ کو خوشگوار قرار دینا اور امریکہ‘ سعودی اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اچھے نتائج سامنے آنے کی توقع وابستہ کرنا انکی رجائیت پسندی ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مسلم ممالک کو یقیناً کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کرنا ہوگی جس کیلئے وزیراعظم نوازشریف نے مسلم ممالک کے مابین معاہدے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاہم ایسا معاہدہ اسی صورت مو¿ثر ثابت ہو سکتا ہے جب بلاامتیاز تمام مسلم ممالک اس معاہدے میں شامل ہونگے اور مسلم نیٹو اتحاد کی طرح مجوزہ معاہدے میں ایران اور کسی دوسرے مسلم ملک کو شامل کرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا۔ اگر سعودی عرب کی میزبانی میں امریکہ سعودی اسلامی سربراہی کانفرنس محض ایران کیخلاف صف بندی کیلئے منعقد کی گئی ہے جس میں پاکستان کو مدعو کرنے کے باوجود دہشت گردی کی جنگ میں اسکے کردار اور قربانیوں کو دانستاً نظرانداز کیا گیا ہے تو اس کانفرنس کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ کے مقاصد کیسے پورے ہو سکتے ہیں۔اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کی رجائیت پسندی اپنی جگہ مگر پاکستان کو دہشت گردی کے قلع قمع کیلئے اپنی پالیسیاں ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہونگی اور طے کرنا ہوگا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اسلامی نیٹو افواج کو کسی مسلم ملک پر چڑھائی کی صورت میں پاکستان اس اتحاد کا حصہ نہیں رہے گا۔ ہمیں اقوام عالم میں بہرصورت اپنا تشخص بھی قائم رکھنا ہے اور ملکی سلامتی کو بھارت یا کسی بھی دوسرے ملک کی جانب سے لاحق خطرات سے محفوظ بھی کرنا ہے۔ بلاشبہ یہی ہمارے قومی مفادات کا تقاضا ہے۔