کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھنے‘زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے پرآئی ایم ایف کی تشویش‘سٹیٹ بینک کا اتفاق
آئی ایم ایف کا کہنا ہے محنت سے حاصل کی گئی بہتری کو ضائع نہ کیا جائے اور ریفارمز کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستانی معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستانی معیشت میں بہتری ہوئی، سلسلہ جاری رہا تو معیشت مزید مستحکم ہوگی، سلسلہ رکا تو موقع ضائع ہوجائیگا۔ عالمی ادارے نے کہا ہے پاکستانی معیشت کا جہاز درآمدات کے انجن پر چل رہا ہے‘ معیشت کے دوسرے انجن برآمدات کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ روپے کی قدر میں لچک سے اس فرق کو بہتر کیا جاسکتا ہے لیکن اسکے دیرپا حل کیلئے حکومت کو برآمدی سیکٹر کے ساتھ مل کرکوئی حکمت عملی بنانا ہوگی۔ بجلی کی پیداوار کے ساتھ ترسیل کے نظام کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ اضافی بجلی سرکلر ڈیٹ بڑھائے گی۔ پاور سیکٹر کے واجبات کا مستقل حل نکالنا ہوگا، وفاق اور صوبے کے مالیاتی امور میں ہم آہنگی قومی ایجنڈا کو مدنظر رکھ کر لانا ہوگی۔ نئے قرض لینے کی گنجائش بھی ہے، لیکن موجودہ صورتحال تشویش کا سبب ہے، جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں عالمی مالیاتی ادارے کے مقامی نمائندے توخیر مرزو نے خبردار کیا ہے وسیع پیمانے پر اقتصادی استحکام گذشتہ 3 برس کی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں حاصل ہوا ، لیکن ان فوائد کو مستقل کرنے کے لئے معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ ملک کے مستقبل میں بہتری سخت محنت کے ذریعے مستحکم منصوبوں کی وجہ سے ممکن ہوئی اور اگر موجودہ معاشی اصلاحات جاری نہیں رہتیں تو وسیع پیمانے پر اقتصادی استحکام بھی کمزور ہوجائے گا۔ انہوں نے کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے اور کمزور مالیاتی نظام کو بڑے مسائل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر اور کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑھتا ہوا خسارہ باعث تشویش ہیں جبکہ بجٹ آمدنی کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔دریں اثناء سٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود 5.75 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔مرکزی بنک نے کہا ہے معیشت کو ادائیگیوں کے توازن کے بگاڑ کے خطرات درپیش ہیں، رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 4.5 سے 5.5 فیصد تک رہنے کا امکان، ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 12.1 ارب ڈالر رہا، برآمدات اور ترسیلات زرمیں کمی جبکہ درآمدات میں اضافے کا رجحان ہے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں 2 ارب ڈالر کمی ہوئی، خدمات کے شعبے میں رواں مالی سال میں بھی بہتری جاری رہنے کی توقع ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کی تحقیقات آئندہ ہفتے مکمل ہوجائیں گی۔ گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کو مانیٹری پالیسی سے متعلق میڈیا بریفنگ کے دوران کہا سی پیک منصوبوں کی وجہ سے معیشت میں بہتری کے امکانات روشن ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کو بلاشبہ اپنی دکان بڑھانے سے دلچسپی ہوتی ہے، ان کا کاروبار قرض کے سود سے چلتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو کاروبار مملکت چلانے کے لئے قرض کی ضرورت ہوتی ہے جو عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر دیتے ہیں بعض اوقات ناگواریت کے باوجود ضرورت مند ممالک کو شرائط قبول کرنا پڑتی ہیں، اس لئے مقروض ممالک کے سامنے آمدنی میں اضافے کی تجاویز رکھی جاتی ہیں۔ قرض لینا ہے تو ہے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط تو ماننا پڑیں گی مگر تجاویز اور رائے پر ملکی حالات اور حقائق دیکھ کر عمل کرنا ہوتا ہے۔ کتنا ہی بہتر ہو کہ قرض سے لت سے وطن عزیز نکل آئے۔ ایسا مشرف کی آمریت کے دور میں ممکن ہو چکا ہے مگر اس کے بعد پہلے دورِ جمہوریت میں ریکارڈ قرض حاصل کئے گئے۔ اس ریکارڈ میں اگلے دور میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ہر شرط اور تجویز کو ناروا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر اس کی طرف سے ٹیکس جمع کرنے میں شفافیت کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ٹیکس نٹ میں مزید لوگوں کو لانے کی تجویز دی جاتی ہے تو اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ٹیکسوں میں اضافے اور روپے کی قیمت گرانے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے جیسی شرائط پر عمل جمہوری حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
آئی ایم ایف نے بجا طور پر نشاندھی کی ہے کہ پاکستانی معیشت کا جہاز درآمدات کے انجن پر چل رہا ہے، معیشت کے دوسرے انجن برآمدات کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ خسارے کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسی پر حکومتیں اکتفا نہیں کرتیں بلکہ عوام کشی میں کوئی کمی رہ جائے تو منی بجٹ در منی بجٹ کے آفٹرشاکس سے پوری ہو جاتی ہے۔ پاکستانی معیشت کے اعداد و شمار کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان جس قدر، برآمدات کرتا ہے اس سے تقریباً دگنا درآمدات کی جاتی ہیں جو بجٹ خسارے کا ایک سبب بنتی ہیں اور پھر درآمدبھی ہم کیا کرتے ہیں دودھ، ڈیری مصنوعات، چاکلیٹس، بسکٹ، انڈے، جوتے، چمڑے کی مصنوعات اور صابن وغیرہ، یہ سب ملک میں دستیاب ہے مگر منافع خور درآمد کر کے بجٹ خسارے کا سبب بنتے ہیں۔ بیرونی ادائیگیوں اور آمدنی میں توازن قائم رکھنے کیلئے درآمدات کی حوصلہ شکنی اور برآمدات کے لئے اقدامات کرنا ہونگے۔ حکومت برآمدات میں اضافے کیلئے اقدامات کے دعوے تو کرتی ہے مگر اس کیلئے ضروری لوازمات سے صرف نظر کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
برآمدات اور سرمایہ کاری لازم و ملزوم ہیں۔سرمایہ کاری کے لئے ماحول کا سازگار ہونا پہلی شرط ہے۔ توانائی کا وافر اور اس کی مناسب داموں دستیابی بھی پہلی شرط سے کم نہیں ہے۔ کوئی جو بھی دعوے کرے ملک میں بیرونی تو کیا ملکی سرمایہ کاروں کے لئے بھی کاروباری ماحول سازگار نہیں ہے۔ دہشتگردی پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے بلاشبہ سرمایہ کاروں اور کاروباری لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ مگر معروضی سیاسی حالات، سیاسی بے یقینی اور بے چینی نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے گرنے اور کرپشن ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اُدھر توانائی بحران میں کمی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق تو بجلی ضرورت کے مطابق پیدا ہو رہی ہے مگر لوڈ شیڈنگ میں گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی اضافہ ہو جاتا ہے۔
آئی ایم ایف نے ترسیلی سسٹم کی بوسیدگی کی نشاندہی کی ہے جس کا متعلقہ اداروں کو خود ادراک ہونا چاہیے۔ ترسیلی سسٹم سرکلر ڈیٹ کا باعث بن رہا ہے۔ لائن لاسز بجلی کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔ بجلی چوری پر قابو پانے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ بجلی چوری روکنے کیلئے حکومت نے عجیب ترکیب نکالی ہے جن علاقوں میں زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جو ایمانداری سے بل ادا کرنے والوں کے لیے ایک عذاب ہے۔ بجلی چوروں کو قانون کے شکنجے میں لانے اور ان کے میٹر کاٹنے کے بجائے پورے علاقے میں لوڈ شیڈنگ حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان ہے۔ ملک میں جہاں ضرورت کے مطابق بجلی دستیاب نہیں وہیں اس کی قیمت بھی ہوشربا ہے۔ آپ نے عالمی مارکیٹ میں جانا ہے تو دنیا کو معیار دینا ہو گا اور قیمتیں اگر مدِمقابل سے کم نہیں تو زیادہ بھی نہیں ہونی چاہئیں۔ پاکستان میں چینی مصنوعات کی محض سستا ہونے کے باعث اسی لیے بڑی پذیرائی ہوتی ہے۔ وہاں مینوفیکچرز کو توانائی انتہائی کم نرخوں پر دستیاب ہے یہی چینی اور پاکستانی مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا فرق ہے۔ آئی ایم ایف نے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر تشویش ظاہر کی ہے اس سے نہ صرف مانیٹری پالیسی میں اتفاق کیا گیا ہے بلکہ وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کی بھی نفی کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ قوم کو زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب سے زائد ہونے پر قوم کو مبارکباد دے چکے ہیں جبکہ سٹیٹ بنک کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 2016ء میں یہ ذخائر 18 ارب ڈالر تھے جو مالی سال 2017 کے اختتام پر کم ہو کر 16.1 ارب ڈالر رہ گئے ایسے تضاد پر ماہرین حکومت پر غلط اعداد و شمار جاری کرنے کے الزامات لگاتے ہیں اور پھر یہ طرفہ تماشہ بھی ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کہ منافع کے بجائے خسارے میں کمی کو بھی کریڈٹ قراردیتے ہیں اس کا اظہار بھی مانیٹری پالیسی میں گورنر سٹیٹ بنک نے کیا۔
بہر حال بیرونی ادائیگیوں اور آمدنی میں توازن کے لئے حکومت کو برآمدات میں اضافے کے انقلابی اقدامات کرنا ہونگے اس میں بجا طور پر ٹیکس نیٹ میں اضافہ ، مالیاتی اداروں کی کاکردگی میں شفافیت اور سب سے بڑھ کر کرپشن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024