ٹرمپ کی آشیرباد سے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے بڑھتے اسرائیلی عزائم
اسرائیلی انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر امریکہ حلف اٹھاتے ہی مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کیلئے مزید 566 مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اس سلسلہ میں شہر کے ڈپٹی میئر مائرترجمین نے ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ منصوبے پر عملدرآمد کیلئے ہمیں ٹرمپ کے آنے کا انتظار تھا اور اسرائیلی وزیرعظم نیتن یاہو نے گزشتہ سال دسمبر میں سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قرارداد منظور ہونے پر متذکرہ منصوبے پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ اب اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر ٹرمپ کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے اور دونوں قائدین کے مابین خوشگوار بات چیت کے دوران ٹرمپ نے نیتن یاہو کو امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا اور اسی کی روشنی میں اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے مزید مکان تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکے بقول اس علاقے میں مزید گیارہ ہزار رہائشی یونٹس بنانے کا پلان زیرغور ہے۔ ڈپٹی میئر مائر نے جو ایک تعمیراتی کمپنی کے سربراہ بھی ہیں‘ کہا کہ اوبامہ دور میں ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے تاہم اب ہم رہائشی یونٹس بالآخر تعمیر کرلیں گے۔
دنیا میں ہونیوالی دہشت گردی کو اسلامی دہشت گردی قرار دینے والے نئے امریکی صدر ٹرمپ کی انتہاءپسند صہیونیت والی بلی اب تھیلے سے باہر آنا شروع ہوگئی ہے۔ انکی اس انتہاءپسندانہ سوچ کی بنیاد پر ہی انکے بارے میں امریکی مو¿ثر حلقوں‘ میڈیا گروپس اور عوام میں ہی سخت تحفظات پیدا نہیں ہوئے بلکہ بیرونی دنیا میں بھی انکے انتخابی منشور پر سخت تحفظات کا اظہار سامنے آیا۔ انہوں نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران مسلم کمیونٹی کو فوکس کرکے اس پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنا شروع کیا اور اس تناظر میں وہ پاکستان کو بھی ہدف تنقید بناتے رہے جبکہ امریکہ میں مقیم دوسرے ممالک کے باشندوں میں انکے منشور میں دی گئی تارکین وطن کی پالیسی سے عدم تحفظ کا احساس اجاگر ہونے لگا۔ پھر انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اسرائیل اور بھارت کے ساتھ فطری اتحادی ہونے کا عندیہ دیا تو انکے حوالے سے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی کہ وہ امریکہ کو بنیاد پرست صہیونی معاشرے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اوبامہ دور میں بھی دہشت گردی کے حوالے سے مسلم کمیونٹی کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی اور دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کے کردار پر جس طرح شکوک و شبہات کا اظہار اور اس سے ”ڈومور“ کا تقاضا کیا جاتا رہا وہ اسلامی دنیا کی اس پہلی ایٹمی قوت کو دباکر رکھنے کا درحقیقت پوری مسلم امہ کیلئے پیغام تھا جبکہ اب ٹرمپ کی قیادت میں مسلم کمیونٹی کو کچلنے کے امریکی عزائم کھل کر سامنے آنے لگے ہیں چنانچہ صدر منتخب ہونے کے بعد کے ٹرمپ کے اعلانات سے مسلم کمیونٹی اور پاکستان میں انکے ساتھ خیرسگالی کے نرم رویے کی جو توقعات پیدا ہوئی تھیں‘ انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد اپنے پالیسی بیان کی صورت میں اس پر اوس ڈال دی ہے اور اب ان کا انتہاءپسند صیہونی روپ کھلتا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں وہ اپنے منشور ہی کے تابع اقدامات اٹھاتے ہوئے امریکی پالیسیاں وضع کررہے ہیں اور پہلے اقدام کے طور پر انہوں نے دنیا بھر سے امریکی سفیروں کو فارغ کر دیا ہے تاکہ وہ اوبامہ کی واشنگٹن انتظامیہ کا بیرونی دنیا میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں کسی قسم کا عمل دخل نہ رہنے دیں اور امریکہ کو اپنی انتہاءپسندانہ سوچ پر مبنی منشور اور پالیسیوں کے تحت چلا سکیں۔
ٹرمپ کی یہ پالیسیاں صرف مسلم کمیونٹی کیلئے ہی خطرے کی گھنٹی نہیں بجارہیں بلکہ پوپ فرانسس نے بھی انکے انتہاءپسندانہ عزائم کا نوٹس لیتے ہوئے دنیا کو باور کرانا ضروری سمجھا ہے کہ ہٹلر کو جرمنوں نے منتخب کیا اور اس نے ملک برباد کردیا۔ اب دیکھیں ٹرمپ امریکہ کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے گزشتہ روز ہسپانوی زبان کے ایک اخبار ”ال پائیس“ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ میں غیرملکیوں کو دور رکھنے کیلئے خاردار تاروں اور دیواروں کی تعمیر کی پالیسی کی مذمت کی اور کہا کہ ٹرمپ کے بارے میں دیکھیں اور انتظار کریں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ بحران سے ہی خوف اور خطرے پیدا ہوتے ہیں۔
ٹرمپ اپنے اقتدار کی ابتداءہی میں مذہبی منافرت کی پیدا کرکے امریکہ کو جس بحران کی جانب دھکیل رہے ہیں‘ دوسری اقوام اور مذاہب کو بجا طور پر اس پر تشویش ہے کہ یہ صورتحال علاقائی اور عالمی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی وزارت مذہبی امور اور رابطہ عالم اسلامی کے تعاون سے منعقدہ پیغام امن کانفرنس میں بھی ٹرمپ کی مسلم دشمن اور مذہبی منافرت پھیلانے والی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ امریکہ اور بڑی طاقتیں دنیا میں اسلام کا اثرورسوخ روکنا چاہتی ہیں۔ کانفرنس میں ٹرمپ کی حالیہ مسلم دشمن سوچ کے باعث اتحاد امت کی ضرورت پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ یہی وہ مو¿ثر ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلم امہ کے سماجی‘ معاشی اور اقتصادی حالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
آج بھارت میں انتہاءپسند مودی سرکار کی جانب سے پھیلائی جانیوالی ہندو جنونیت اور اب ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکہ کو لپیٹ میں لینے والی صیہونی جنونیت ہی مسلم امہ میں اتحاد امت اور امتِ واحدہ کی سوچ کو اجاگر کررہی ہے جس سے بین المذاہب یکجہتی کی فضا پارہ پارہ ہوگی تو اس سے دنیا کو مذہبی انتہاءپسندی کے ہاتھوں سنگین خطرات لاحق ہونگے۔ منافرت و محاذآرائی کی اس فضا میں یقیناً مسلم کمیونٹی کو اپنی بقاءکی فکرلاحق ہوگی تو وہ اتحاد امت کو ہی اپنا مو¿ثر ہتھیار بنائے گی۔ چنانچہ ٹرمپ درحقیقت دنیا کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور اس بنیاد پر بین المذاہب تصادم کی نوبت لا کر دنیا کی تباہی کا اہتمام ہی کررہے ہیں۔
اگر امریکی عوام ٹرمپ کے حوالے سے یہ حقیقت آشکاراہونے پر انہیں منتخب کرنے کی غلطی پر پچھتا رہے ہیں اور ان کیخلاف احتجاجی مظاہروں کے ذریعے رائے عامہ کو منظم کرکے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی اس جدوجہد کو ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک کی کامیابی سے منتج کرنا چاہیے‘ بصورت دیگر دنیا میں مذہبی منافرت پھیلانے کے ٹرمپ کے عزائم کے آگے بند نہیں باندھا جا سکے گا۔ یہ عزائم درحقیقت ان کا انسانی کشت و خون کی نوبت لانے کا ایجنڈا ہے جو اتحادِ ہنود و یہود کی صورت میں بین المذاہب تصادم کی راہ ہموار کریگا اس لئے ٹرمپ کا اقتدار برقرار رہا تو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا تاراج ہونا نوشتہ¿ دیوار ہے۔