چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارا چنار، کرم ایجنسی اور پشاور کے سی ایم ایچ ہسپتالوں کا دورہ کیا اور دہشت گردی میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کی۔عمائدین علاقہ کے مطالبے پر آرمی چیف نے پاراچنار میں معیاری تعلیم کیلئے آرمی پبلک سکول کے قیام کا اعلان کیا۔اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ مذہب، صوبائیت، زبان اور فرقے کے امتیاز سے بالاتر ہوکر ہم سب پاکستانی ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارا چنار دھماکے کی جائے وقوعہ کا بھی دورہ کیا۔اس دھماکے میں26افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
زخم خوردہ دہشت گرد گو وقفے ہی سے سہی، اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہوئے بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ دہشت گردی میں کمی کا بجاطور پر کریڈٹ حکومت اور فوج کو جاتا ہے۔ مگر ضربِ عضب اپریشن کا اڑھائی سال بعد بھی منطقی انجام کو نہ پہنچنا تشویشناک ہے۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل نہ کیا گیا تو اپریشن ضرب عضب کا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا۔ سانحہ کوئٹہ کمیشن میں ایکشن پلان پر عمل نہ کرنے کی نشاندہی کی گئی اور ان کوتاہیوں کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے جس کی مرتکب مرکزی وزارت داخلہ ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ پر عمل کرنے کے بجائے وزیر داخلہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ یہ وزارت داخلہ کی مجرمانہ غفلت ہے کہ کالعدم تنظیم کا ایک رکن پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے کر رکن بن گیا۔ وزیر داخلہ شدت پسند کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کے درمیان امتیاز کا درس دیتے ہیں۔ فرقہ واریت دہشت گردی سے کم ناسور نہیں ہے۔ کالعدم تنظیموں کے رہنماﺅں کے وقار، احترام اور عزت و ادب کی بات کرنا فرقہ واریت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ آرمی چیف نے یہ کہہ کر وزیر داخلہ کی بات کی نفی کر دی کہ مذہب، زبان، صوبائیت اور فرقے کے امتیاز سے بالاتر ہو کر ہم سب پاکستانی ہیں۔
جنرل باجوہ نے پاراچنار میں عمائدین کے مطالبے پر علاقے کےلئے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں اور عوام کے مسائل حل کرنے سے انکے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں معاملات درست سمت میں جارہے تھے کہ فوجی آمر جنرل مشرف نے معروف سیاستدان اور قبائلی سردار اکبر بگٹی کو قتل کرا دیا جس سے بلوچستان میں ایک بار پھر بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اکبر بگٹی کے بیٹے مرحوم طلال بگٹی اور پوتے زین بگٹی جیسے لوگوں نے حکومت کےخلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ زین بگٹی نے گزشتہ روز کہا کہ انہوں نے مشرف کو معاف نہیں کیا۔ بلوچستان کے لوگ محرومیوں کا بھی شکار ہیں۔ جنرل باجوہ بلوچوں کیلئے بھی فوجی سطح پر جو ممکن ہے کرنے کی کوشش کریں۔ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف نے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں جو پراجیکٹ شروع کئے تھے ان میں جنرل باجوہ توسیع اور اضافہ کرسکتے ہیں۔