وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ کے بیان کے بعد مبصرین نے اگلے چند ہفتوں کو ملکی سیاسی ماحول کیلئے انتہائی اہم اور فیصلہ کن قرار دیا ہے۔سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف میرے لیڈر نہیں میں ان سے سینئر ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج نہیں‘ حکومت حدود سے تجاوز کررہی ہے۔ ان کے مطابق 40 ارکان پارٹی چھوڑنے پر تیار ہیں۔
ریاض پیرزادہ کے بعد‘ جمالی کا یوں گویا ہونا پارٹی میں بے چینی ظاہر کرتا ہے۔ مختلف رہنمائوں کی بیان بازیوں اور حالات میں تبدیلیوں کے بعد بعض لوگوں نے میاں نوازشریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ پارٹی کو انتشار سے بچانے کیلئے قیادت میں تبدیلی ضروری نظر آرہی ہے۔ میاں صاحب کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ہر قیمت پر قابل انتخابات یعنی الیکٹ ایبل لوگ جمع کرلئے یوں بھاری اکثریت حاصل کرلی۔ اب پانامہ لیکس کی افتاد درپیش نہ ہوتی تو میاں صاحب کو وزارت عظمیٰ اور اسمبلی کی رکنیت نہ چھوڑنی پڑتی۔ اس صورت میں مالا کے بکھرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا کیونکہ انتخابات جیتنے کیلئے ان کے پاس لوڈشیڈنگ کا خاتمہ‘ سی پیک‘ دہشت گردی کا خاتمہ‘ سڑکوں اور موٹرویز کی تعمیرات کے دلفریب نعرے تھے۔ لیکن اگر اب بھی پارٹی کے ارکان جلد بازی نہ کریں اور پارٹی سے جڑے رہیں تو مسلم لیگ (ن) میاں صاحب کی قیادت میں ہی آئندہ انتخابات جیت سکتی ہے۔ آج اگر کچھ لوگ علیحدگی اختیار کریں گے یا گروپنگ کریں گے تو وہ خسارے میں رہیں گے کیونکہ میاں صاحب کے دوسرے نعروں میں ’’مظلومیت‘‘ کا نعرہ بھی شامل ہوگا۔ متحد رہنے کی صورت میں پہلی بڑی کامیابی مسلم لیگ (ن) کی راہ تک رہی ہے جو مارچ میں سینٹ کے انتخاب میں پیش آنے والی ہے۔ فی الوقت قیادت کے بدلنے یا گروپ بنانے کی باتیں وہی لوگ کررہے ہیں جو تاب انتظار نہیں رکھتے!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024