کشمیر پر پاکستان اور بھارت امریکی کوششوں سے مذاکرات پر متفق، جلد پیش رفت ہو سکتی ہے: ترجمان پینٹاگون۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کرانے میں کوشاں ہیں: سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ۔
امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے ساتھ رابطہ کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس مسئلہ کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی افواج کے مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی پوری دنیا پر آشکار ہے۔ یہ مسئلہ گذشتہ 70 برسوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت ان پر عملدرآمد سے انکاری ہے۔ ان حالات کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے باہمی مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر بھارت بزور طاقت کشمیر کو غلام بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اب امریکہ اور اقوام متحدہ اس مسئلے کے حل کیلئے سرگرم ہوئے ہیں تو اس میں فوقیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر دینی چاہیے۔ صرف بھارت سے مذاکرات اس مسئلہ کے حل کیلئے کافی نہیں کیونکہ آج تک ہمیشہ بھارت نے جب بھی کشمیر کی تحریک آزادی کے باعث عالمی برادری کی طرف سے دباﺅ کے بعد مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کا ڈھونگ رچایا اسے خود ہی سبوتاژ بھی کرتا رہا ہے اس لئے اب امریکہ اور اقوام متحدہ کو ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھنا ہو گا تاکہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے بہتر مستقبل اور ایٹمی جنگ کے خوف سے نجات کیلئے اس مسئلہ کا پرامن حل نکالا جائے جو صرف اور صرف رائے شماری سے ہی ممکن ہے۔
افغان سفیر کی بدزبانی
ایسا شخص سفیر جیسے عہدے کا اہل نہیں ہوسکتا
امریکہ کیلئے افغان سفیر حمد اللہ محب نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں صرف افغانستان ہی پاکستان پر الزام نہیں لگا رہا بلکہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھی اس پر اندرونی مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ پاکستان پر صرف بحیرہ عرب کی مچھلیاں دہشت گردی کا الزام نہیں لگاتیں کیوںکہ مچھلیاں بول نہیں سکتیں۔ جبکہ پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے کہا کہ افغانستان اپنے ملک میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام پاکستان پر نہیں لگا سکتا کیونکہ افغانستان میں جو حملے ہو رہے ہیں ان میں زیادہ تر کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہی ہوتی ہے۔یہ توتکار واشنگٹن میں موجود امریکی تھنک ٹینک انڈس کی جانب سے کارنیگی انڈومنٹ میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات، سفارتی اور سکیورٹی کے مسائل پر منعقدہ اجلاس میں ہوئی۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی میں افغانستان کے ہٹ دھرمی والے رویے کے باعث اضافہ ہورہا ہے۔ افغانستان کو بدترین دہشتگردی کا سامنا ہے جس کی بنیادی وجہ امریکہ کی طرف سے طالبان حکومت کا خاتمہ اور اس حکومت کا کوئی مناسب متبادل فراہم نہ کرنا ہے۔ امریکہ نے زمام اقتدار پہلے حامد کرزئی کے سپرد کی پھر اشرف غنی کو متبادل کے طور پر سامنے لایا گیا۔ دونوں نے بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا جو پاکستان کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ وہ افغانستان کی سرزمین افغان حکمرانوں کو شیشے میں اتار کر پاکستان کیخلاف استعمال کرتا ہے۔ ان حکمرانوں کو قومی سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہیں اس لیے وہ پاکستان کی خطے اور افغانستان میں امن کیلئے تعاون کی ہر پیشکش کو ٹھکرا چکے ہیں۔ افغانستان کے اندر طالبان گوریلا وار لڑرہے تھے کہ داعش بھی افغانستان میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگی۔ افغان حکومت کی ادھوری رٹ صرف کابل تک محدود ہوگئی ہے۔ پاکستانی سفیر نے درست کہا کہ افغانستان میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی اسکے اندر ہی ہوتی ہے۔ مگر بھارت کے ایما پر پاکستان کیخلاف زہر اگلنا افغانستان نے وطیرہ بنا لیا ہے۔ اختلافات، کشیدگی اور الزامات اپنی جگہ مگر اخلاقیات کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے۔ افغان سفیر کے اول تو الزامات لغو اور بے بنیاد ہیں دوسرے اس نے غیر اخلاقی اور غیر سفارتی زبان استعمال کی ہے۔ جو اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کا عکاس ہے۔ ایسے شخص کو سفیر تعینات کرنیوالے بھی شرمندہ ہونگے۔ افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان قوم کی سبکی کا باعث بننے والے شخص کو برطرف کرکے کسی سلجھے ہوئے شخص کو اس اہم منصب پر تعینات کرے جسے کم ازکم سفارتی ادب آداب کا تو علم ہو۔
یوم القدس مسلم امہ کے اتحاد کا متقاضی
آج بروز جمعة المبارک پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے مسلمان ممالک میں یوم القدس منایا جارہا ہے۔اس دن کے منائے جانے کا مقصد فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے جو تقریباًسترسال سے اسرائیل کی ننگی بربریت اور درندگی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس موقع پر مسلمان فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کریں گے اور انکی آزادی کی دعائیں مانگیں گے ۔
یوم القدس ہر رمضان کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی کے لئے امڈتے جذبات کے ساتھ مسلمان کئی دہائیوں سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ جلوس نکال رہے، ریلیاں اور سیمینار منعقدہ کر رہے ہیں مگر فلسطین کی آزادی کیلئے جس جدوجہد کی ضرورت ہے ‘ جس اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے وہ مسلم امہ میں عنقا ہے۔ فلسطین کی آزادی کیلئے کبھی عرب ممالک متحد تھے مگر یہ اتحاد پہلے انتشار میں بدلا اور آج فساد میں بدل چکا ہے۔ سعودی عرب اور ایران آزاد فلسطین کے بڑے حامی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ عرب ممالک اجتماعی طور پر آزاد فلسطین کے لئے جہادی فلسفے کے قائل رہے ہیں آج یہ اس قدر تقسیم ہو چکے ہیں کہ فلسطین ترجیح سے نکل گیا ہے۔ قطر اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف آمادہ یلغار ہیں۔ دونوں امریکہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔ مسلم ممالک اصل مقصد سے ہٹ کر بٹ چکے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینی کاز کو ہوا ہے۔ مسلمانوں کے نفاق کا اثر مسئلہ کشمیر پر بھی پڑ رہا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ظلم و جبر اور بربریت کی انتہا کر رکھی ہے۔ مسلم ممالک متحد ہو کر ہی اپنے دیرینہ اور اہم ایشوز حل کرا سکتے ہیں۔ یوم القدس مسلم امہ کے اتحاد کا تقاضہ کرتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38