حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کا شاہکار‘ نئے بجٹ کے اطلاق سے پہلے ہی 441 درآمدی اشیاءکی ڈیوٹی میں ناروا اضافہ
ایف بی آر نے 441‘ اشیاءکو پرتعیش قرار دے کر انکی درآمدی ڈیوٹی میں مختلف شرح سے اضافہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نئے بجٹ میں 441‘ اشیاءپر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھاجو یکم جولائی سے مو¿ثر ہوگا تاہم ایف بی آر نے ریونیو کے یقینی شارٹ فال میں کمی کیلئے 21 جون سے ہی ڈیوٹی کے نئے ریٹ نافذ کردیئے ہیں۔ اس سلسلہ میں جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق مچھلی اور مچھلی کے گوشت کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی دس فیصد بڑھا کر 25 فیصد کردی گئی ہے جبکہ دہی‘ مکھن‘ ڈیری سپریڈ‘ پنیر‘ قدرتی شہد اور پھلوں میں سے پائن ایپل‘ آم‘ فروزن آم‘ مینگوپلپ‘ اورنج‘ کینو‘ گریپ فروٹ‘ لیمن‘ سیب‘ خوبانی اور اسی طرح چیونگم‘ وائٹ چاکلیٹ اور کوکا پیسٹ کی درآمد پر ڈیوٹی 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کردی گئی ہے ۔ اسی طرح پان کے پتوں کی درآمد پر دو سو روپے فی کلو ریگولیٹری ڈیوٹی لگے گی۔ دیگر اشیاءمیں کارن فلیک‘ بلگرویٹ اور ٹماٹر پیسٹ کی ڈیوٹی میں پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور آلو کی درآمد پر بھی ڈیوٹی 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کردی گئی ہے۔
جن دیگر درآمدی اشیاءکی ڈیوٹی میں پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے‘ ان میں خواتین کا سامان زیبائش بشمول لپ میک اپ‘ پرفیومز‘ آئی میک‘ نیل پالش‘ٹیلکم پاﺅڈر‘ فیس اینڈ سکن کریم‘ شیمپوز اور دیگر اشیاءمیں منرل واٹر‘ مشروبات‘ ٹوتھ پیسٹ‘ ٹرنک سوٹ‘ ہینڈ بیگ‘ والٹ‘ سگریٹ کیسز‘ جیولری کیس‘ واٹرپروف فٹ ویئر‘ ماربل‘ گرینائیٹ‘ ٹائلز‘ سیلنگ فین‘ پیڈسٹل فین‘ سٹل فین‘ ٹیبل فین‘ ایگزاسٹ فین‘ ایئرکنڈیشنر‘ ریفریجریٹر‘ اوون‘ مائیکروویو اوون‘ ٹوائلٹ سرامکس‘ ڈنرسیٹ‘ ٹی کپ اور واش بیسن شامل ہیں۔ اسی طرح مختلف قسم کی گاڑیوں کی درآمد پر بھی ریگولیری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے جو پچاس فیصد سے بڑھا کر 60 فیصد کیا گیا ہے۔ اسلحہ میں سنگل شوٹ‘ سیمی آٹومیٹک اور دوسری گنز کی درآمد پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کردی گئی ہے۔ ڈیوٹی کی شرح میں اس اضافے کا اطلاق گزشتہ روز 21 جون سے ہی کردیا گیا ہے چنانچہ اس اقدام سے عید کی خریداری کرنیوالوں پر مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے موجودہ دور کے آخری بجٹ کے ٹیکس فری بجٹ ہونے کا اعلان کرکے عوام میں اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو یہ کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا کہ اس نے بجٹ دستاویز پڑھے بغیر ہی بعض ایسی چیزوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ظاہر کردیا ہے جو بجٹ دستاویز میں موجود ہی نہیں ہیں۔ اب وزیر خزانہ کے ماتحت ایف بی آر کی جانب سے 441 مختلف درآمدی اشیاءجن میں زیادہ تر روزمرہ استعمال کی اشیاءشامل ہیں‘ کی ڈیوٹی میں پانچ فیصد سے 15 فیصد تک اضافہ کا اعلان کیا گیاہے جس کا نیا بجٹ لاگو ہونے سے پہلے اطلاق بھی ہوگیا ہے تو بجٹ میں کئے گئے اعداد و شمار کے اس ہیرپھیر پر قوم کس کی جوابدہی کرے اور بجٹ کے ٹیکس فری ہونے کا اعلان کرنیوالے وفاقی وزیر خزانہ اب مہنگائی کے مارے عوام کو کیسے مطمئن کر پائیں گے۔
ہمارے حکمرانوں کی اب تک یہی روایت رہی ہے کہ سال میں ایک بار لاگو ہونیوالے بجٹ کے دوران نئے ٹیکسوں اور مختلف اشیاءکے نرخوں میں اضافے کی شکل میں چار پانچ ضمنی بجٹ بھی قوم پر مسلط کردیئے جاتے ہیں جو حکومت کے پیش کئے جانیوالے فنانس بل کا حصہ بھی نہیں ہوتے۔ اس طرح عوام مہنگائی کا ایک بوجھ بجٹ کی صورت میں اٹھاتے ہیں اور پھر ہر دو چار مہینے بعد منی بجٹ کی شکل میں حکمرانوں کی جانب سے مہنگائی کا اضافی بوجھ بھی عوام پر لادنے کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ عوام کو مہنگائی کا تیسرا بوجھ یوٹیلٹی بلوں میں آئے روز کئے جانیوالے اضافے کی شکل میں اٹھانا پڑتا ہے جبکہ اب تو گیس اور آئل کمپنیوں کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کے نرخوں میں ہر پندرہ روز بعد ردوبدل کرسکتی ہیں۔ تکمیل پذیر ہونیوالے موجودہ بجٹ کے دوران عوام کے ساتھ سال بھر یہی کھیل تماشا ہوتا رہا ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا رجحان رہا ہے مگر ہمارے ہاں گنگا ہمیشہ الٹی چلائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے جس پر جوابدہی کا تو کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ اس طرح نیا وفاقی بجٹ آنے سے پہلے پہلے عوام نے بجٹ میں بڑھائے گئے ٹیکسز اور نئے ٹیکسز کا بوجھ بھی بھگتا اور پھر مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق عوام یوٹیلٹی بلوں میں بتدریج اضافے اور دوسرے ضمنی میزانیوں کا بوجھ بھی اٹھاتے رہے اور اس طرح عملاً وہ زندہ درگور ہوکر رہ گئے۔
عوام کو توقع یہی تھی کہ موجودہ حکومت کے آخری بجٹ میں انہیں مہنگائی سے ریلیف دینے کی کوشش کی جائیگی کیونکہ اس بجٹ کی مدت کی تکمیل کے بعد حکمرانوں نے اگلے انتخابات کیلئے دو زانو ہوکر پھر عوام کے پاس جانا ہے جو وزیراعظم نوازشریف کے بقول سب سے بڑی جے آئی ٹی ہے۔ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو وزیراعظم کی کچن کیبنٹ کے اہم رکن ہیں‘ اگلے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانے کے مرحلہ میں ہی ڈیوٹی کی مد میں 441‘ اشیاءکے نرخوں میں اضافہ کرکے اپنے مرتب کردہ ضمنی بجٹ کا اطلاق کردیا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ٹیکس فری بجٹ لانے اور عوام پر ضمنی میزانیوں کی شکل میں مہنگائی کا کوئی اضافی بوجھ نہ ڈالنے کے حکومتی دعوے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں جبکہ چور دروازوں کے علاوہ اب اعلانیہ طور پر بھی وفاقی بجٹ کے مقابل ضمنی بجٹ لانے کی حکومتی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔ چونکہ ضمنی بجٹ فنانس بل کی طرح منظوری کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرنے کی مجبوری بھی لاحق نہیں ہوتی اس لئے حکومت کو عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کیلئے کسی قانونی‘ آئینی رکاوٹ کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس کیلئے عوام پر وقتاً فوقتاً مہنگائی کے کوڑے برسانا آسان ہو جاتا ہے۔
رواں مالی سال کے دوران توقع یہی تھی کہ حکومت اپنے آخری بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے اور ان پر منی بجٹ کی شکل میں مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈالنے سے گریز کریگی تاکہ آئندہ انتخابات کیلئے اسے عوام کے پاس جانے میں آسانی ہو سکے تاہم اس بار تو حکمرانوں نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے نئے بجٹ کے اطلاق سے بھی پہلے بجٹ میں تجویز کی گئی درآمدی اشیاءکی ڈیوٹی کی شرح لاگو کردی ہے اور اس طرح عوام کی میٹھی عید کی خوشیاں بھی پھیکی بنا دی ہیں۔ حکومتی عاجلانہ پالیسی سے اب عوام کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار ررکھنا بھی مشکل ہو جائیگا جو یا تو زندگی سے خلاصی پانے کیلئے خودکشی اور خودسوزی کا راستہ اختیار کرینگے یا تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حکمرانوں کیخلاف وہ ہنگامہ برپا کرینگے جو حکمرانوں پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہمیشہ اپوزیشن کے کام آتا ہے۔ اگر حکومت نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے بجٹ کے اطلاق سے 9 روز قبل ہی اس بجٹ کی مہنگائی بڑھانے والی مدات عوام پر مسلط کردی ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقات کو عوام سے کتنی ہمدردی ہے اور عوامی مسائل کا کتنا ادراک ہے۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ نے گزشتہ روز ایک کیس کی سماعت کے دوران بادی النظر میں درست ریمارکس دیئے ہیں کہ لگتا ہے ایف بی آر اور شعبہ¿ ٹیکس خانہ بدوش چلا رہے ہیں۔ بجائے اسکے کہ ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں بہتری لائی جائے اور مقررہ اہداف پورے کرنے کی کوشش کی جائے‘ ایف بی آر نے عوام پر نئے ٹیکس مسلط کرکے ریونیو بڑھانے کی روش اختیار کرلی ہے جو سیدھا سیدھا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔ اگر حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی تکمیل کے مراحل میں بھی عوام کو مہنگائی اور دوسرے مسائل سے ریلیف دینے کا احساس نہیں ہورہا اور وہ ممکنہ عوامی ردعمل کی پرواہ کئے بغیر انہیں مہنگائی کی مار مارنے کی پالیسی پر گامزن ہیں تو انتخابات میں عوام انہیں پھول پیش کرنے کیلئے تو ہرگز نہیں آئینگے۔ پہلے ہی متعدد گھمبیر بحرانوں میں گھری مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے یقیناً یہ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کیلئے عوام کے پاس کیا لے کر جارہی ہے۔ اسے کم از کم عوام دشمن پالیسیوں کے حوالے سے سابقہ حکمران پیپلزپارٹی کے گزشتہ انتخابات میں ہونیوالے حشر سے ہی سبق سیکھنا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38