ٹرمپ کی جنوبی ایشیاءسے متعلق نئی امریکی پالیسی میں پاکستان کو براہ راست دھمکیاں اور بھارت کی ستائش
امریکی ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کیلئے براہ راست دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے‘ پاکستان کو افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے پر فائدہ ورنہ نقصان ہوگا۔ گزشتہ روز آرلینگٹن کے فوجی اڈے سے بحیثیت کمانڈر انچیف امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں ٹرمپ نے پاکستان‘ افغانستان اور جنوبی ایشیاءکے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے اور انکے ٹھکانوں پر حملے کرینگے۔ انکے بقول ہم نے ان پر اقتصادی پابندیاں لگائیں جو دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ امریکی قوم گزشتہ سال کی جنگوں سے پریشان ہوچکی ہے‘ مجھے بھی امریکی عوام کی طرح افغان جنگ کی طوالت پر مایوسی ہوتی ہے‘ ہماری قوم کو فوجیوں کی قربانیوں کا صلہ چاہیے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان اکثر ان افراد کو پناہ دیتا ہے جو افراتفری پھیلاتے ہیں‘ ہمیں افغانستان اور جنوبی ایشیاءمیں چیلنجنگ صورتحال کا سامنا ہے‘ پاکستان اپنا رویہ جلد تبدیل کرلے‘ ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔
ٹرمپ نے پاکستان کو امداد میں کمی کی بھی دھمکی دی اور کہا کہ اب پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف اپنی کمٹمنٹ دکھانا ہوگی‘ ہم پاکستان سے نمٹنے کیلئے اپنی سوچ تبدیل کررہے ہیں‘ پاکستان تہذیب کا مظاہرہ کرکے قیام امن میں دلچسپی لے۔ انکے بقول پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ہیں‘ ہم ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان کا سامنا کرنے کیلئے افغان حکومت اور فوج کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے نیٹو اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ نئی حکمت عملی میں امریکہ کا ساتھ دیں۔ بھارت کی ستائش کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں استحکام کیلئے بھارت کے کردار کو سراہتا ہے‘ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کیلئے مزید کام کرے۔ ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ کا پالیسی بیان جاری ہونے سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو فون کرکے انہیں نئی امریکی پالیسی پر اعتماد میں لیا تھا۔
پاکستان‘ افغانستان اور جنوبی ایشیاءکے حوالے سے متوقع نئی امریکی پالیسی کے بارے میں گزشتہ کچھ روز سے میڈیا یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ٹرمپ اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کا گھیرا تنگ کرنیوالے ہیں۔ ان قیاس آرائیوں میں کوئی اچنبھے کی بات اس لئے نہیں تھی کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران اور پھر امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد انکے ایماءپر واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ میں اسکے کردار کے حوالے سے الزامات کا طومار باندھا جانے لگا اور پاکستان کی سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی گرانٹ کو قرض میں تبدیل کرکے اس میں کمی کیلئے بھی امریکی کانگرس میں قرارداد پیش کردی گئی جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملے بڑھانے کا بھی عندیہ دے دیا گیا اور ایک دوسری قرارداد کے ذریعے پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی کا سٹیٹس ختم کرنے کا بھی تقاضا کردیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ ساری منصوبہ بندی درحقیقت بھارت کے ایماءپر پاکستان کو زچ کرنے اور دہشت گردی کی جنگ میں بھارتی ڈکٹیشن کے مطابق اس سے ”ڈومور“ کے تقاضے بڑھانے کی تھی اس لئے ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کیلئے جو دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا‘ وہ واشنگٹن انتظامیہ کے اعلانات کے عین مطابق ہے جس میں پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا اعلان درحقیقت پاکستان کی سالمیت پر حملے کا اعلان ہے جو آج اختیارات کی کشمکش میں ایک دوسرے کے لتے لینے والی ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے غوروفکر کا متقاضی اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ٹرمپ کے پالیسی بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے رسمی طور پر باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کیخلاف جنگ کامیابی سے لڑی ہے تاہم اس وقت ٹرمپ کے پالیسی بیان پر محض مایوسی کا اظہار کرنے اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے مو¿ثر کردار کا محض رسمی طور پر احساس دلانے کے بجائے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے قومی خارجہ پالیسی پر سنجیدگی کے ساتھ نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر اس سے پہلے بھارت کی جانب سے ہماری سلامتی کو براہ راست چیلنج کیا جاتا رہا ہے جو آج بھی ہمارے خلاف مہم جوئی پر آمادہ نظر آتا ہے اور اسی طرح کابل انتظامیہ کی جانب سے ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں تو دہلی اور کابل کے اس رویے میں بھی امریکہ ہی کا عمل دخل رہا ہے۔ اگر ٹرمپ اپنے پالیسی بیان میں بھی پاکستان کی بے بہا قربانیوں کے باوصف افغانستان میں قیام امن کیلئے بھارت کے کردار کی ستائش اور پاکستان کو اپنا رویہ جلد تبدیل کرنے کی تلقین کررہے ہیں تو ان کا یہ لب و لہجہ درحقیقت ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جس میں ہر دہشت گردی کا منبع مسلمانوں کے دین اسلام کو ٹھہرانے اور ہر ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی ٹھانی گئی ہے۔ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر اپنے پہلے خطاب میں اسی تناظر میں دہشت گردی کو اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کیا تھا جبکہ وہ انتخابی مہم کے دوران بھی دہشت گردی کا ملبہ مسلمانوں اور پاکستان پر ہی ڈالتے رہے اور صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنے انتخابی منشور کو واشنگٹن انتظامیہ کی پالیسیوں میں تبدیل کردیا چنانچہ ٹرمپ کی جانب سے اب پاکستان کیلئے کسی نرم رویے کی گنجائش ناممکنات میں شامل رہے گی‘ اس کا عندیہ انہوں نے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کا ٹوٹا ہوا تسلسل دوبارہ قائم کرکے دیا جبکہ یہ ڈرون حملے بڑھنا بھی شروع ہوگئے اور اب ٹرمپ کے پالیسی بیان میں تو پاکستان پر ملبہ ڈالنے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی گئی۔ یہ صورتحال ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہماری سلامتی کے ساتھ ساتھ ہماری خودمختاری اور خودداری کیلئے بھی چیلنج ہے جو ہمارے ننگے دشمن بھارت کی پشت پر کھڑی نظر آتی ہے اور مودی کے دورہ¿ نیویارک کے دوران ٹرمپ نے انکے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون اور اسلحہ کی خریداری و تیاری کے مزید معاہدے کرکے درحقیقت بھارت کیلئے مکمل جانبدار ہونے کا اعلان کیا چنانچہ ہمیں اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کیلئے آج پہلے سے بھی زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔
امریکی نائن الیون کے بعد ہمارے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے محض اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر اس خطے میں شروع کی گئی مبینہ دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کی ہزیمتوں کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ میں شریک ہونے‘ نیٹو افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے اور امریکہ کو پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کی اجازت دینے سے ہی پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا جس کے بے گناہ شہریوں کا امریکی ڈرون حملوں سے بھی اور انکے ردعمل میں ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کے باعث بھی خونِ ناحق بہنے لگا اور یہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی اس پرائی آگ میں کود کر دہشت گردوں اور انتہا پسند تنظیموں کے نشانے پر آگیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ جس طوطاچشم امریکہ کی سلامتی کی خاطر پاکستان نے اپنے دس ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں اور حکام سمیت اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کی قربانی دی اور اپنی معیشت کا 80‘ ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا‘ اسی امریکہ کی جانب سے آج پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے جبکہ وہ بھارت کے ایماءپر کشمیری حریت تنظیموں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر پاکستان کے کشمیر کاز کو بھی سبوتاژ کرنے کے درپے نظر آتا ہے۔
کیا اس حقیقت کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اپنے شہریوں کی جان و مال کو داﺅ پر لگا کر دہشت گردی کی جنگ میں سرخرو ہونے کے اقدامات اٹھائے ہیں اور آج بھی ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں اور انکے حامیوں و سہولت کاروں کیخلاف بلاامتیاز اپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں چنانچہ چین سمیت پوری دنیا پاکستان کے اس کردار کی معترف ہے اور چین کے دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز اقوام عالم پر زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ اور خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کریں۔ اگر اسکے برعکس امریکہ کی جانب سے نہ صرف پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس پر حملوں کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں تو اس صورتحال میں ہمارے فرنٹ لائن اتحادی والے کردار کی بھلا کیا اہمیت رہ جاتی ہے چنانچہ ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال تو ہماری سول اور عسکری قیادتوں سے ملک کے دفاع اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی فوری‘ مو¿ثر اور ٹھوس حکمت عملی تشکیل دینے کی متقاضی ہے۔ ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کے باعث اب پاکستان کیلئے امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کی ویسے ہی کوئی گنجائش نہیں رہی جبکہ امریکہ خود بھی ہمارا فرنٹ لائن اتحادی کا سٹیٹس ختم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں اب ”آبیل مجھے مار“ والی پالیسی سے خود کو بہرصورت باہر نکالنا ہوگا اور ٹرمپ کی دھمکیوں کا انہی کے لب و لہجے میں جواب دینا ہوگا۔ یہ ہماری قومی غیرت و حمیت اور ملکی خودمختاری کا بھی سوال ہے اس لئے سول اور عسکری قیادتوں کو باہمی مناقشتیں ختم کرکے ملکی سلامتی کی خاطر ایک پیج پر آنا اور مشترکہ و متفقہ قومی دفاعی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ اس سلسلہ میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا گزشتہ روز کی پریس بریفنگ کے دوران قومی مکالمے میں فوج کے حصہ دار بننے کا عندیہ خوش آئند ہے جس سے قومی ہم آہنگی کی فضا استوار ہوگی۔ اس وقت سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا بلاتاخیر انعقاد ہونا چاہیے۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو تمام قومی سیاسی و دینی قیادتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے بھی فوری طور پر عملی پیش رفت کرنی چاہیے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فی الفور بلا کر قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار کرنی چاہیے۔ ٹرمپ کے جارحانہ پالیسی بیان کے بعد ہم اپنی ٹھوس پالیسی کیلئے گومگو کا شکار رہنے کے کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتے۔