وزیراعظم نوازشریف کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے رجائیت پسندی اور دہشت گردی کا تسلسل …… کیا حکومت دہشتگردوں سے ریاستی اتھارٹی تسلیم کرانے کی پوزیشن میں ہے؟
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ہم پورے خلوص سے کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرلئے جائیں کیونکہ اسی میں سب کی بہتری ہے۔ گزشتہ روز کراچی آمد کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مذاکرات میں اونچ نیچ اور اتار چڑھائو ہو جاتا ہے مگر اس وقت بھی خلوص نیت سے بات چیت جاری ہے اور پیش رفت بھی ہوئی ہے تاہم حتمی فیصلے تک پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔ انکے بقول کراچی اپریشن کے بھی اچھے نتائج نکل رہے ہیں۔ قبل ازیں انہوں نے امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپریشن کے دوران قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے کردار کو قابل ستائش قرار دیا اور اعلان کیا کہ کراچی میں آخری مجرم کی گرفتاری تک ٹاگٹڈ اپریشن جاری رہے گا۔ انہوں نے کراچی اپریشن میں بعض شکایات اور تحفظات دور کرنے کیلئے سندھ حکومت کو ہدایات جاری کیں اور کہا کہ قیام امن کیلئے سیاسی اور مذہبی قوتوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
وزیراعظم نوازشریف اور انکی حکومت کا مذاکرات کے ذریعے دہشت گردوں کو ملک کی سالمیت کیخلاف اپنی جاری سازشوں سے روکنے اور امن بحالی کا فلسفہ یقیناً انکی دانست میں درست ہو گا مگر حکومت کی جانب سے اسکے اقتدار کے آغاز ہی سے جاری مذاکرات کے عمل کے اب تک مثبت اور حوصلہ افزا نتائج قوم کے سامنے نہیں آسکے۔ اسکے برعکس طالبان نے اپنی اعلان کردہ فائربندی کے دوران بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور اب فائربندی کے عرصہ میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔ پیر کے روز بڈھ پیر پشاور میں دہشت گردوں کی جانب سے پولیس موبائل پر فائرنگ کے نتیجہ میں ایک تھانیدار سمیت پانچ اہلکار اور ایمبولینس ڈرائیور جاں بحق ہوا جبکہ منیرمینگل روڈ کوئٹہ میں دہشت گردوں کی جانب سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں تین افراد گولیوں سے چھلنی ہو گئے۔ اسی طرح منگل کے روز بھی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا اور چارسدہ پشاور میں نوشہرہ روڈ پر پولیس وین کے قریب بم دھماکے اور فائرنگ کے نتیجہ میں دو اہلکاروں سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ پشاور میں یکے بعد دیگرے ہونیوالی دہشت گردی کی ان وارداتوں میں 28 افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس فضا میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا فطری امر ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی فضا سازگار بنانے‘ انکے تین درجن کے قریب قیدیوں کو رہا کرنے اور انہیں مزید سہولتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی کے باوجود انکی جانب سے بے گناہ لوگوں کا قتل عام جاری ہے اور اب باقاعدہ اعلان کرکے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کی حکومتی حکمت عملی کب اور کیسے مثبت نتائج کی حامل ثابت ہو پائے گی۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے گزشتہ روز بھی حکومت کو پیغام بھجوایا گیا ہے کہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو اس کا جواب دیا جائیگا۔ طالبان ذرائع نے اس امر کا بھی واضح عندیہ دے دیا ہے کہ اب سیزفائر میں کسی صورت مزید توسیع نہیں ہو گی۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت کی جانب سے رہا کئے گئے افراد کے ٹی ٹی پی سے کسی قسم کے تعلق کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا اور کہا ہے کہ حکومت کے رہا کردہ افراد تو ہمارے لوگ ہی نہیں جبکہ حکومت کی جانب سے واضح طور پر باور کرایا جا چکا ہے کہ طالبان کی پیش کردہ فہرست میں شامل لوگوں کو ہی رہا کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں تو ٹی ٹی پی میں مذاکرات کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر اعتماد کا فقدان ہی نظر آتا ہے جو حکومت کو باور کرا رہی ہے کہ اب بال حکومت کی اپنی کورٹ میں ہے کہ وہ مذاکرات میں پیش رفت کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب اپنے قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ اپنے پیش کردہ دیگر مطالبات میں بھی حکومتی پیش رفت چاہتی ہے جبکہ وہ مطالبات تسلیم کرنا عملاً حکومتی ریاستی اتھارٹی کو انتشار پسندوں کے آگے سرنڈر کرنے کے مترادف ہو گا۔
گزشتہ ہفتے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مابین اتفاق ہوا تھا کہ بے شک مذاکرات کیلئے پیش رفت کی کوششیں بھی جاری رکھی جائیں گی تاہم طالبان کی کسی بھی کارروائی پر انہیں سخت جواب دیا جائیگا۔ اس حکمت عملی پر اتفاق کے بعد طالبان کی جانب سے کی گئی دہشت گردی کی کسی واردات کا بھی ٹھوس جواب نہیں دیا گیاجبکہ وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ روز امن کی بحالی کی حکومتی حکمت عملی پر اظہار خیال کرتے ہوئے مذاکرات کے پہلو کو تو اجاگر کیا مگر طالبان کی دہشت گردی کا جواب دینے کی حکمت عملی کا تذکرہ کرنا بھی انہوں نے مناسب نہ سمجھا۔ اسکے برعکس کالعدم ٹی ٹی پی نے یہ ضرور باور کرادیا ہے کہ ان کیخلاف کسی حملے کا بھرپور جواب دیا جائیگا۔ اس صورتحال سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت انسانی خون کی ندیاں بہانے والے شدت پسندوں کیخلاف کسی فیصلہ کن اپریشن کے معاملہ میں ابھی تک گومگو کا شکار ہے‘ یقیناً اسی پس منظر میں پیپلزپارٹی کی جانب سے حکومتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کے ایشو پر پارلیمنٹ کا ’’ان کیمرہ‘‘ اجلاس بلانے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پیپلزپارٹی کے سنیٹر سید رضا ربانی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سوات میں ایک پبلک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات پر سٹیک ہورلڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔ اسی تناظر میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ جب تک امن قائم نہیں ہوتا اور دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس بنیاد پر ان کا تقاضا ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل کی بحالی پر اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم حکومت پر الزام دھر رہے ہیں کہ وہ اعلانات کے باوجود طالبان کمیٹی سے ملاقات نہیں کر رہی جبکہ طالبان قیدی رہا نہ ہونے سے مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوئے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب خود وزیراعظم نوازشریف مذاکرات کے معاملہ میں پرامید ہیں اور مذاکرات کی کامیابی کی خاطر طالبان کی کارروائیوں کو بھی دانستاً نظرانداز کر رہے ہیں تو انکی اپنی خواہش کے مطابق اب تک مذاکرات میں پیدا ہونیوالا ڈیڈلاک دور کیوں نہیں ہو سکا جبکہ اس کیلئے طالبان ہی نہیں‘ عمران خان اور پروفیسر ابراہیم بھی حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ آخر کب تک مذاکرات کے معاملہ میں حکومت اور طالبان کے مابین آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہے گا اور کب تک عوام امن کی بحالی کو ترستے رہیں گے؟ گزشتہ دس سال سے تسلسل کے ساتھ جاری دہشت گردی میں ہماری دھرتی کا سینہ چھلنی ہوتے ہوئے اب عوام کو زندگی کے وسائل مہیا کرنے کے معاملہ میں بانجھ ہوتا نظر آرہا ہے اور ملک و قوم پر طاری غیریقینی کی فضا نے مستقبل کے حوالے سے مایوسیوں کی چادر پھیلانا شروع کردی ہے اس لئے حکومت کو جو بھی اقدام اٹھانا ہے‘ وہ بلاتاخیر اٹھا لیا جائے۔ اگر حکومت ملک کی سلامتی اور بے گناہ انسانی جانوں کے درپے دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو مذاکرات کے ذریعے سمجھا بجھا کر انہیں حکومتی ریاستی اتھارٹی تسلیم کرنے اور اچھا شہری بننے کے راستے پر لے آتی ہے تو یقیناً یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ان عناصر سے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا ہر سلسلہ رکوا دیا جائے اور پھر امن و آشتی کی فضا میں باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ اگر حکومت کی مذاکرات کیلئے یکطرفہ پیش رفت کے باوجود دہشت گردی کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائیگا تو مذاکرات سے کیسے اور کب کوئی مثبت نتیجہ اخذ ہو پائے گا۔