سینٹ میں وفاقی وزیر دفاع و پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے بجلی کے نرخوںمیں اضافے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں نیٹ اضافہ نہیں کیا گیا نہ ہی بجلی کے نیٹ ٹیرف کو بڑھایا گیا ہے۔ جہاں اضافہ کیا گیا‘وہاں دوسری جانب سے سرچارج فیول ایڈجسٹمنٹ و دیگر مد میں کمی کردی گئی ہے۔ اس پر سینیٹرکامل علی آغا نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کو حقائق چھپانے پر ہدف تنقید بنایا۔
چند روز قبل وزیر پانی و بجلی نے کہا تھا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہم نے نہیں‘ نگران حکومت نے کیا تھا۔ اگر یہ کارنامہ نگران حکومت نے انجام دیا تو اس وقت بجلی کے وزیر مصدق ملک تھے۔ ان کی شاید لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بلوں کو دوچند کرنے کی ادا وزیراعظم نوازشریف کو پسند آگئی۔ وہ آج وزیراعظم کے مشیر ہیں۔ خواجہ صاحب کے اس بیان میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ بجلی کے نرخ ان کی حکومت کے دوران نہیں بڑھائے گئے۔ یکم اکتوبر 2013ء کو بجلی کیساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ظالمانہ اضافہ کیا گیا تھا۔ اس روز بجلی کی 30 فیصد قیمت بڑھا دی گئی جس کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے نوٹس لیا‘ تاہم حکومت ان کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی طرح چکر دے گئی۔اسکے بعد بھی تواتر سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا۔ پی پی پی کے آخری دور کے مقابلے میں آج بل تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ اووربلنگ کا عذاب مسلط کیا گیا۔ آ ج پھر 30 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ خواجہ آصف صارفین کی اس بے دردی سے ادھیڑی گئی چمڑی بھی کیا نگران حکومت کے کھاتے میں ڈالیں گے؟ ایک طرف بجلی کے نرخوں میں اندھادُھند اضافہ‘ دوسری طرف اس سے انکار ایک کھلا جھوٹ ہے۔ یہ نجانے حکمرانوں کی طرف سے کیوں بولا جاتا ہے۔ دھرنے والوں نے حکومت کو اسکے انہی ’’کارناموں‘‘ کے باعث آگے لگایا ہوا ہے۔ عمران خان نے ضلعی سطح پر بجلی کی قیمت میں اضافے کیخلاف مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ عوام اضافہ بھگت رہے ہیں‘ وہ خواجہ آصف کے بیان پر کیونکر یقین کرینگے۔آخری اطلاع کے مطابق حکومت نے گزشتہ روز کیا گیا اضافہ واپس لے لیا ہے۔ یہ شاید دھرنے والوں کے احتجاج سے بچنے کی کوشش ہے۔ حکومت بجلی کے نرخوں میں ریلیف پیداوار میں تیل پر انحصار کم کرکے ہی دے سکتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر تو متنازع بنادی گئی ہے دیگر ہائیڈل پراجیکٹس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024