اسلام آباد میں گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل پر حکومت کو ایک بار پھر سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور ارکان کی دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی اہم بل منظور نہ ہو سکا۔ اجلاس میں 100کے ایوان میں صرف 40ارکان شامل ہوئے۔ قائد ایوان سینٹ راجہ ظفر الحق نے تجویز پیش کی کہ متعلقہ آئینی ترمیم اور ایجنڈا بدھ تک موخر کردیا جائے، چیئرمین سینٹ نے تجویز سے اتفاق کیا۔
قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان قانون سازی کیلئے منتخب ہوئے ہیں‘ ان کا بنیادی فرض قانون سازی ہے لیکن بہت کم سرکاری اور غیر سرکاری ارکان اس کام میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یوں قانون سازی کا خاصا کام ملتوی رہتا ہے اور تو اور آئینی ترامیم سے بھی یہی سلوک ہوتا ہے، حالانکہ اس موقع پر سب کو حاضر ہونا چاہئے‘بحث مباحثے میں بھرپور دلچسپی لینی چاہئے تاکہ کوئی شق اور لفظ ایسا نہ نکل جائے جس سے ملکی و قومی مفاد متاثر ہو۔ انتخابات میں وقت بہت کم رہ گیا ہے، پیشتر اس کے کہ الیکشن کمیشن کام شروع کرے، انتخابات کے آئینی و قانونی تقاضے پورے ہونے ضروری ہیں اگر قانون سازوں نے اسی انداز میں کام کیا، تو الیکشن کے کام کی رفتار متاثر ہوگی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیشتر ارکان ایوان میں حاضری دینے کی بجائے فائلوں پر دستخط کرانے کیلئے لابیوںمیں وزراء کے پیچھے پھر رہے ہوتے ہیں۔وزیراعظم اور وزراء بھی ایوانوں میں ارکان کی حاضری کی کمی کے ذمہ دار ہیں۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ قانون سازی کے اہم موقعوں پر خود بھی ایوانوں میں حاضر رہیں اور ارکان کو بھی پابند کریں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ارکان کی اپنی تنخواہوں اور مراعات کا بل پیش ہونا ہوتا ہے تو ایوان میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ اگر سمجھا جائے تو جو بل دوبارہ موخر ہوکر حکومت کی سبکی کا باعث بنا ہے وہ مراعات والائونس کے بلوں سے کہیں زیادہ اہم تھا۔حکومت نے اپوزیشن کا نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کیخلاف بل مسترد کرادیا‘ ارکان کو اسمبلی میں لاکر اکثریت ثابت کردی۔ حلقہ بندیوں کے بارے میں بھی ایسی ہی سنجیدگی دکھائی جاتی تو وہ بل بھی منظور ہوجاتا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024