آرمی چیف کے دورہ¿ امریکہ کے دوران پاکستان روس دفاعی تعاون کا معاہدہ اور دہشتگردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق
پاکستان اور روس کے مابین دفاعی شعبے میں تعاون بڑھانے کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ معاہدے پر دستخط کی تقریب گزشتہ روز وزارت دفاع راولپنڈی میں ہوئی جس میں روسی وزیر دفاع سرگئی شوئے کو اور پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس سلسلہ میں روسی وزیر دفاع 41 رکنی وفد کے ہمراہ پاکستان کے ایک روزہ دورے پر آئے تھے۔ معاہدے کے مطابق ماسکو اسلام آباد کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں استعمال کیلئے ایم آئی 35 گن شپ ہیلی کاپٹر فراہم کریگا۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے اس معاہدے کو اہم سنگ میل قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کیلئے روس کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ روسی وزیردفاع نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج اور عوام کی قربانیوں کی ستائش کی اور کہا کہ پاکستان دفاعی پیداوار میں بھی ترقی کر رہا ہے۔ انکے بقول سکیورٹی اور دفاعی تعلقات کو بڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ دریں اثناءوزیراعظم میاں نوازشریف نے روسی وزیر دفاع سے ملاقات کے دوران اس امر کا اظہار کیا کہ پاکستان روس کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ ہم روسی منڈیوں تک رسائی اور تجارتی حجم میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں‘ ہم روس کے ساتھ باہمی تعلقات کو کثیرالجہتی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روسی کمپنیاں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور روس شنگھائی تعاون تنظیم میں رکنیت کیلئے تعاون کرے۔ پاکستان روس دفاعی معاہدے کے حوالے سے وزارت دفاع کی جانب سے بھی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی تعلقات کوبہتر بنایا جائیگا اور یہ معاہدہ خطے میں امن و استحکام کیلئے معاون ثابت ہو گا۔
اس وقت جبکہ دہشتگردی کے خاتمہ کی جنگ فیصلہ کن مراحل میں ہے اور آئندہ ماہ دسمبر میں نیٹو فورسز کا افغانستان سے انخلاءمکمل ہونے کے بعد علاقائی امن و استحکام کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ خطے کے ممالک کا دہشت گردی سے مستقل نجات کی حکمت عملی پر اتفاق خوش آئند ہے جبکہ اس دوطرفہ باہمی تعاون سے ماضی کی شکررنجیاں اور منافرتیں ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی چنانچہ نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان‘ چین اور روس کا ایک دوسرے کے قریب آنا اور ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی‘ تجارتی تعاون کے بندھنوں میں بندھنا علاقائی امن و استحکام کے علاوہ ترقی و خوشحالی کی بھی ضمانت بن سکتا ہے۔ ماضی میں بالخصوص روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور روس کے مابین بگاڑ اس وقت ہی پیدا ہو گیا تھا جب وزیراعظم لیاقت علی خان دورہ¿ روس کی دعوت مسترد کرکے امریکہ چلے گئے تھے۔ اس وقت سے ہی ہماری خارجہ پالیسیوں کا جھکاﺅ امریکہ کی جانب ہوا جس سے امریکہ نے سوویت یونین کیخلاف سرد جنگ میں زیادہ فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی معاونت سے افغان مجاہدین کی مادی اور حربی امداد اور سرپرستی کرکے سوویت فوجوں کو نہ صرف افغانستان سے واپس جانے پر مجبور کیا بلکہ یہ سرد جنگ ہی سوویت یونین کے ٹوٹنے پر منتج ہوئی۔ اس صورتحال میں روس کا امریکہ ہی کی طرح پاکستان کو بھی اپنا دشمن سمجھنا فطری امر تھا۔ چنانچہ اس کا جھکاﺅ ہمیشہ ہمارے دشمن بھارت کی جانب رہا جس کے ساتھ اس نے دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے بھی کئے اور اقتصادی طور پر بھی اسے ترقی سے ہمکنار کرنے میں مدد دی مگر امریکی نائن الیون کے بعد جب دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے امریکہ کا اس خطے میں عمل دخل بڑھا تو پاکستان کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننے سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات بھی تبدیل ہو گئیں اور بغض معاویہ کے تحت یا اپنے مفادات کی بنیاد پر اس نے امریکہ کے ساتھ دوستی بڑھالی جس سے امریکہ کو بھی اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے معاملہ میں تقویت اور کمک حاصل ہوئی۔ امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے باہمی تعاون کے نتیجہ میں ہی پاکستان امریکہ تعلقات میں ایک دوسرے کے ساتھ تحفظات‘ سردمہری اور کشیدگی کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز برقرار ہے اور اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ¿ امریکہ کے ذریعے دوطرفہ تحفظات دور کرنے اور ایک دوسرے کے مابین اعتماد کی فضا بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کیلئے امریکی سینیٹرز اور سی آئی اے حکام سے ملاقات کے دوران آرمی چیف کا یہ یقین دلانا امریکی تحفظات دور کرنے کی جانب ہی ایک قدم ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کیخلاف بلاتفریق اور فیصلہ کن کارروائی کر رہا ہے جس سے خطے میں بہت جلد امن لوٹ آئیگا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرادی کہ ہم پاکستان اور افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے۔ امریکہ ہماری عسکری اور سول قیادتوں کی ایسی یقین دہانیوں سے مطمئن ہوتا ہے یا نہیں‘ اس کا تو نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی کردار سے ہی اندازہ لگایا جا سکے گا تاہم دہشت گردی کی جنگ میں ہماری حکمت عملی پر امریکہ ابھی تک ہم سے غیرمطمئن ہی نظر آتا ہے اس لئے اس نے پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے باوجود ڈرون حملوں کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے اور گزشتہ روز آرمی چیف کے دورہ¿ امریکہ کے دوران بھی اس نے شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ایک گھر پر ڈرون حملہ کیا جس سے پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یقیناً دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کی اپنی بھی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ 12 سال کے دوران اس ناسور نے ہماری ارض وطن کا انجرپنجر ہلا دیا ہے اور دس ہزار کے قریب ہمارے فوجی جوانوں اور افسران سمیت 60 ہزار کے لگ بھگ ہمارے شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد گروپوں کی ایران اور چین کے صوبے سنکیانگ میں کارروائیوں سے ان دونوں ممالک کے بھی ہمارے ساتھ تحفظات پیدا ہوئے ہیں چنانچہ دہشت گردی سے نجات اس خطے کے ممالک کا مشترکہ مفاد بن چکا ہے۔
پاکستان کو چونکہ بھارت کی جانب سے بھی اپنی سلامتی کو مستقل خطرات لاحق رہتے ہیں جو امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے لاتعداد معاہدے کرکے ہم سے چار گنا زیادہ دفاعی صلاحیتیں حاصل کر چکا ہے اور ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ کے ڈھیر لگا چکا ہے اس لئے موجودہ صورتحال میں اپنی بقائ‘ تحفظ اور استحکام کی خاطر خطے کے ممالک چین اور روس سے دفاعی اور اقتصادی تعاون بڑھانا ہماری ضرورت بن چکا ہے۔ اس سے ایک تو دہشت گردوں کی کارروائیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا اور دوسرے علاقائی اور عالمی ضرورتوں کے مطابق خطے کے ممالک کے باہمی تعاون کے نتیجہ میں امریکہ کا بگاڑا گیا طاقت کا توازن بھی درست ہو سکتا ہے چنانچہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے دوران ہی روسی وزیر دفاع کے دورہ پاکستان اور پاک روس دفاعی تعاون کے معاہدے سے باہمی علاقائی تعاون کو ترجیح اول بنانے کا پیغام ایک مثبت پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے جس کے مستقبل میں دوررس اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ یقیناً ہمیں بھی اپنی سلامتی اور خوشحالی و استحکام کے حوالے سے اپنے بہترین قومی مفادات کو پیش نظر رکھنا ہے جس میں قومی خارجہ پالیسیوں میں علاقائی تعاون بڑھانے کی حکمت عملی ہی سود مند نظر آتی ہے۔ اگر روس کی تائید سے پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت حاصل کرلیتا ہے تو اس سے ہماری اقتصادی ترقی اور تجارت کی نئی راہیں کھلیں گی۔ اس تناظر میں پاکستان روس دفاعی معاہدہ باہمی اور علاقائی ترقی و خوشحالی اور امن و استحکام کی راہیں استوار ہونے کی نوید ہے۔