امریکہ کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ہمارے پاس ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت اور ٹیکنالوجی موجود ہے
برطانوی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے متعلق پالیسی مزید سخت کر سکتی ہے جس کی وجہ پاکستان میں طالبان کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں بتائی گئی ہے۔ برطانوی ایجنسی ”رائٹرز“ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ پاکستان سے افغانستان میں ہونیوالے حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کیخلاف کریک ڈاﺅن کا مطالبہ کریگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بڑے غیرنیٹو اتحادی کا درجہ کم کرنے سمیت ڈرون حملوں میں اضافہ اور پاکستان کی امداد میں تبدیلی یا اسے روکے جانے کے امکانات زیرغور ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان سے تعلقات میں کمی نہیں بلکہ بڑا تعاون چاہتا ہے جس کیلئے افغانستان میں 16 سالہ جنگ سے متعلق سٹریٹجی کا جائزہ مکمل ہونے کے بعد اہم اقدامات اٹھائے جائینگے۔
اس حوالے سے ترجمان پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان وسیع تر قومی سلامتی کے امور پر شراکت داری جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ افغانستان میں مزید فوجی دستے تعینات کرنے کو تیار ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں افغان سفیر حمداللہ محب نے بھی اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان کیلئے امریکی پالیسی مزید سخت ہوگی جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے باور کرایا گیا ہے کہ اب امریکہ کیلئے ”ڈومور“ کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں وائٹ ہاﺅس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایا کہ واشنگٹن انتظامیہ پاکستان کے ساتھ جاری عسکری تعاون میں کمی کا بھی سوچ سکتی ہے تاہم اس نئی حکمت عملی کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی دستاویز جاری نہیں کی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ ماہ جولائی کے وسط تک اپنی علاقائی حکمت عملی پیش کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ میں تعینات پاکستان کے پریس منسٹر عابد سعید نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا درست نہیں اور یہ زمینی حقائق کی نفی ہے۔ ”رائٹرز“ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کیخلاف سخت اقدامات کی تیاریاں کررہا ہے۔
امریکی حکام کے حوالے سے برطانوی خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کی جاری کردہ یہ رپورٹ درست ہے تو افغان جنگ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی کے ساتھ امریکی طوطا چشمی کی یہ بدترین مثال ہوگی جو اس جنگ کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے دی گئی کثیر جانی و مالی قربانیوں کی بھی تحقیر کے مترادف ہوگا۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگرس کو سالانہ بجٹ میں پاکستان کیلئے فوجی ہارڈویئر کی مد میں دی گئی گرانٹ قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی جس کا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسودہ بھی تیار کرکے امریکی کانگرس کو بھجوایا جا چکا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان میں ڈرون حملوں کا منقطع سلسلہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شروع کر دیا گیا اور ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اب تک پاکستان میں پانچ ڈرون حملے کئے جاچکے ہیں جبکہ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر ہر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے معاملہ میں بھی امریکہ افغانستان کو تھپکی دیتا نظر آتا ہے۔ اگر امریکہ افغانستان کے مبینہ الزامات کی بنیاد پر پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ کرنے اور اسکی امداد کم کرنے یا روکنے کا عندیہ دے رہا ہے تو پاکستان کیلئے اس سے بڑی توہین اور تضحیک اور کوئی نہیں ہو سکتی اس لئے اب دانش و حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرکے دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرلیا جائے‘ اگر امریکہ ہماری جانب سے دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اپریشن کے باوجود ہماری سرزمین پر ڈرون حملے بڑھانے پر غور کررہا ہے تو یہ درحقیقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ ہو گا اس لئے نہ صرف یہ امریکی مجوزہ پالیسی ہمیں قابل قبول نہیں ہونی چاہیے بلکہ پاکستان میں گھسنے والے ڈرونز گرانے کی حکمت عملی بھی ابھی سے طے کرلینی چاہیے جس کا ملک کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ و دفاع کی خاطر ہمیں پورا حق حاصل ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسیوں کی بھی حمایت کرتا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی فروغ دینے کی بھارتی سازشوں میں عملاً شریک افغانستان کی بھی سرپرستی کررہا ہے جبکہ افغانستان امریکی شہ پر ہی ہمیں آنکھیں دکھاتا اور کابل دہشت گردی سمیت ہر دہشت گردی کا ہم پر ملبہ ڈال رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایک ڈوژیئر کی شکل میں اس امر کے ٹھوس ثبوت اور شواہد بھی امریکی دفتر خارجہ کو پیش کئے جا چکے ہیں کہ بھارتی ایجنسی ”را“ کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری گھناﺅنی وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ سارے ثبوت اور شواہد کابل انتظامیہ کو بھی فراہم کئے گئے اور افغان حکومت سے اپنی سرزمین پر موجود طالبان لیڈر ملافضل اللہ اور دوسرے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اپریشن کیلئے کہا گیا مگر افغان حکومت نے نہ صرف یہ اپریشن نہیں کیا بلکہ پاک افغان سرحد کے راستے دہشت گردوں کی پاکستان کی جانب آزاد نقل و حمل بھی شروع ہوگئی جو کابل انتظامیہ کی آشیرباد سے ہی ممکن ہے۔ جب پاکستان نے حفاظتی اقدامات کے تحت طورخم اور چمن سرحد بند کی تو افغانستان پاکستان کے ساتھ باقاعدہ دشمنی پر اتر آیا جس کی جانب سے اسکی سکیورٹی فورسز کے حملے شروع کردیئے گئے جبکہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کرلیا گیا۔ جب کابل دہشت گردی کے بعد بلاتحقیق فوری طور پر پاکستان پر اس کا ملبہ ڈالا گیا تو پاکستان کی جانب سے اسے باور کرایا گیا کہ دہشت گردی کی ایسی وارداتیں اسکی اپنی اندرونی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہیں اس لئے وہ پاکستان پر ملبہ ڈالنے کے بجائے اپنے معاملات درست کرے۔ اب اگر امریکہ کی جانب سے کابل انتظامیہ کے بے سروپا الزامات کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی اختیار کرنے کا سوچا جارہا ہے جس کا برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں عندیہ دیا گیا ہے تو یہ عظیم قربانیاں دینے والے اپنے فرنٹ لائن اتحادی کو دانستہ طور پر خود سے دور دھکیلنے کے مترادف ہے۔
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہر ممکن کارروائی عمل میں لانا اس وقت پاکستان کی اپنی ضرورت ہے جس کیلئے اسے امریکی ڈکٹیشن کے تحت کسی مخصوص کارروائی کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اپنے مفادات کے تحت دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے پر خود بلاامتیاز اپریشن کررہا ہے جس کیلئے جاری اپریشن ردالفساد سے نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہورہی ہیں جبکہ ایسے اپریشن کی افغانستان میں پاکستان سے زیادہ ضرورت ہے۔ امریکہ کو اسکی جانب بھی توجہ دینا چاہیے اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سکیورٹی کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ پاکستان نے تو پہلے ہی افغان سرحد پر سکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا مرحلہ وار عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس سے لامحالہ دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل رکے گی تاہم دہشت گردی سے مستقل خلاصی اسی صورت ممکن ہے جب کابل انتظامیہ اس کیلئے مخلص ہوگی اور پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اپریشن کا جامع لائحہ عمل طے کریگی۔
ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان اور اس خطے میں قیام امن مقصود ہے تو اس کیلئے اسے کابل انتظامیہ کو ٹھوس اقدامات کا پابند کرنا ہوگا چہ جائیکہ وہ پاکستان پر کسی قسم کی پابندیاں لگائے اور اسکی سرزمین پر ڈرون حملے بڑھانے کا سوچے۔ ایسی امریکی پالیسی سے افغانستان میں امن و استحکام کی فضا تو شاید ہی استوار ہو پائے مگر اس سے پاک امریکہ تعلقات میں ضرور دراڑیں پیدا ہونگی اس لئے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے معاملات پر سوچ سمجھ کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان بہرصورت ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جسے اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ و دفاع کے اقدامات اٹھانے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا امریکہ اپنے تحفظ کی خاطر اٹھا سکتا ہے۔ اسے بخوبی علم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت اور ٹیکنالوجی موجود ہے جس کا تازہ ترین مظاہرہ گزشتہ روز پاکستانی حدود میں گھس آنیوالا ایرانی ڈرون مار کر کیا گیا۔ پاکستان کی فضائی حدود میں غیرقانونی طور پر آنیوالے اسکے ڈرون گرنا شروع ہونگے تو اس سے امریکہ کی اپنی ہی سبکی ہوگی۔ اب امریکہ کیلئے ہماری جانب سے ”ڈومور“ کی گنجائش بلاشبہ ختم ہوچکی ہے۔