سلامتی کونسل میں امریکی نمائندے اور پاکستانی مندوب میں جھڑپ‘ امریکہ کا طالبان پر مذاکرات کے لئے زور
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران پاکستانی اور امریکی مندوبین کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک خصوصی اجلاس میں افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات اور رابطوں کے متعلق معاملات زیر غور آئے۔ اس وقت تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا جب امریکی نائب وزیر خارجہ جان سلیوان نے کہا کہ اب امریکہ پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا کیونکہ اس نے دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ پاکستان کو افغان تنازعے کے حل کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے شریک ہونا چاہئے۔ افغان سکیورٹی فورسز کا طالبان کیلئے واضح پیغام یہ ہے کہ اس تنازعے کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور وہ کسی صورت بھی مسلح کارروائیوں سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کے اس موقف کے جواب میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ گزشتہ 17 برس سے جاری افغان تنازع نے واضح کر دیا ہے کہ جنگی حالات کے ساتھ نہ تو افغان حکومت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی طالبان فتح یاب ہو سکتے ہیں۔ سفارتی مکالمہ کے ساتھ ساتھ جنگی کارروائیوں کی حکمت عملی صرف اور صرف تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ صرف لفاظی سے معاملات حل نہیں ہوتے اس کے لئے مؤثر اور عملی بات چیت کی بھی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب نے مزید کہا کہ افغانستان اور اس کے اتحادی، خاص طور پر امریکا اس تنازعے کا الزام کسی اور کے سر دھرنے سے پہلے افغانستان کے اندرونی چیلنجز پر توجہ دے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے جس اجلاس کے دوران پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی اور امریکی معاون وزیر خارجہ جان سلیوان کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اسی اجلاس میں سلیوان نے کہا کہ ہمیں مل کر طالبان کو تنہا کرنا ہو گا۔ نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں مزید فوجی تعینات کئے جائیں گے جب کہ دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکنے کے لئے ہمسایہ ملک، پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر یلغار کے لئے پاکستان سے تعاون مانگا تو پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر سہولت کاری کا کردار ادا کیا‘ یہاں تک کہ پاکستان خود بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ معیشت تباہ ہوئی پانچ ہزار سے زائد سکیورٹی کے افسروں اور جوانوں سمیت 65 ہزار پاکستانی اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے جو امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہزاروں میل دور لڑنے کے لئے آیا تھا۔ اس نے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا اور اقتدار اپنے من پسند لوگوں کے حوالے کر دیا۔ امریکہ نے پاکستان کی سرزمین افغانستان میں طالبان حکومت کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کی۔ پاکستان میں بھی اسے جہاں شک و شبہ گزرتا طالبان کے حامیوں کے ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بناتا رہا۔ کئی سال پاکستان میں شدت پسندوں پر بمباری کے لئے استعمال ہونے والے ڈرون پاکستان ہی سے اڑتے رہے۔ جس پر پاکستان کی طرف سے خود مختاری پامال کرنے پر شدید احتجاج کیا جاتا تھا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے حکمرانوں کی امریکہ کے ساتھ ’’کمٹمنٹ‘‘ کا اندازہ وکی لیکس کے ان انکشافات سے لگایا جا سکتا ہے جن میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ ہم صرف عوام کو مطمئن کرنے کے لئے ڈرون حملوں پر احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔
آج بھی جب امریکہ کے خلاف حکمران طبقہ کی طرف سے سخت بیان آتے ہیں تو عوام کا ان پر یقین کے لئے متذبذب ہونا ایک فطری امر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نااہل ہونے والے وزیراعظم کے وکی لیکس کے انکشاف کا تو یہی سبق ہے۔ تاہم اب امریکی دھمکیوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستان کے خلاف جارحیت کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہ جارحیت کے نتائج و عواقب سے قطع نظر دھمکیوں پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کیبنٹ میں بھی یقیناً ذی ہوش لوگ ہوں گے جو ٹرمپ کو اس حد تک جانے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ بالفرض امریکہ جارحیت پر اتر آتا ہے تو پاکستان کو جائے رفتن نہ پائے ماندن اپنا دفاع تو کرنا ہے مگر حالات کو اس حد تک جانے سے روکنے کے لئے جو بھی ممکن ہے‘ کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ کو یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کو پناہ دینے میں پاکستان کا کیا مفاد ہو سکتا ہے؟ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کو کامیابی دلانے کے لئے اس کا ساتھ دیا۔ پاکستان کے دفاع کا زیادہ تر انحصار امریکہ کے اسلحہ اور ایکوپمنٹ پر ہے اور امریکہ پاکستان کی خاطرخواہ سپورٹ فنڈ کی صورت میں امداد بھی کر رہا‘ ان حالات میں پاکستان کے پاس امریکہ سے دوری کا آپشن کیونکر ہو سکتا ہے؟
امریکہ 17 سال سے افغانستان کے کوہساروں سے سر ٹکرا رہا ہے۔ اس کی یہی پالیسی رہتی ہے تو اگلی ایک صدی میں بھی افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اور اتحادیوں نے علاقے پر علاقے فتح کر لئے‘ اپنی مرضی کی حکومت تو قائم کر لی مگر حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ صدر اشرف غنی کہتے ہیں کہ صدارتی محل کی حفاظت کے لئے اس کی دیواریں اونچی کر لی ہیں۔ امریکی کمانڈر جنرل نکلسن کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی سڑکوں پر سفر نہیں کر سکتے۔ ان کی نقل و حمل کے لئے جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے ہیں۔ افغانستان کے بڑے حصے دوبارہ سے طالبان کے پاس چلے گئے۔ طالبان نے اپنے مقبوضات کو مضبوط تر بنایا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کی بات کرے تو اسے احمق ہی کہا جائے گا۔ حکومتی رٹ تو کابل کے اندر بھی پوری طرح سے نہیں ہے‘ آئے روز تباہ کن دھماکے اور حملے اس کا بین ثبوت ہیں۔ گزشتہ روز کابل کے انٹرنیشنل ہوٹل پر دہشت گردوں کی یلغار میں کئی مہمان ہلاک و زخمی ہوئے جبکہ غیر ملکی اداکارہ سمیت 15 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ خودکش دھماکے کے بعد 6 حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے مہمانوں کو ہلاک کیا۔ کابل کی سڑکوں پر بھی افغان انتظامیہ سکیورٹی نہیں رکھ سکتی‘ دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں دندناتے ہوئے جاتے اور ہدف کو ٹارگٹ کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں جب امریکہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے بہت کچھ کر رہا ہے۔ اپنے فوجی مروا رہا ہے‘ اخراجات کی کوئی انتہا نہیں۔ 17 سال سے سر ٹکرا رہا ہے۔ مرضی کے نتائج حاصل نہ ہونے پر اس کا ڈپریشن کا شکار ہونا فطری امر ہے مگر حالات اشتعال میں آنے اور غصہ دکھانے سے مزید بگڑیں گے‘ بہتر نہیں ہو سکتے۔ ایسے حالات میں تدبر اور تحمل کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے بااعتماد دوست کو کھونے کی نہیں اس سے مشاورت کی ضرورت ہے۔
پاکستان امریکہ کی امداد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے‘ امریکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں سرخرو تو کیا ہو گا وہاں اس کے دستوں کا محفوظ رہنا بھی محال ہو گا۔ امریکہ نے نیٹو سپلائی بند ہونے پر افغانستان میں متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ افغانستان تک سپلائی اور رسائی پاکستان کے سوا کسی اور طرف اور کسی طریقے سے ممکن نہیں ہے۔ بھارت تو پاکستان کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا۔ بھارت کا ایک مخصوص ایجنڈا ہے‘ اس کے لئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے۔ وہ افغان سرزمین حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے کٹھ پتلی حکمرانوں کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف بروئے کار لا رہا ہے۔ اس کو ٹرمپ افغانستان میں وسیع تر کردار دینا چاہتے ہیں۔ یہ بھارت کو پاکستان میں مداخلت کے مزید مواقع فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔ آج بھارت نے اپنی مکاری‘ فریب کاری اور لگائی بجھائی سے امریکہ کو پاکستان سے اس قدر بدظن کر دیا کہ گرم جوشی پر مشتمل تعلقات میں سرد مہری آئی اور کشیدگی دشمنی کا روپ دھارتی نظر آتی ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری اور افغانستان میں قیام کے لئے نہ صرف بھارت کو وسیع تر کردار دینے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے افغانستان سے لاتعلق کرنا ناگزیر ہے۔
جان سلیوان نے سلامتی کونسل میں جہاں طالبان کو واضح پیغام دیا کہ تنازعے کا حل مذاکرات ہی سے ممکن ہے‘ وہ کسی صورت مسلح کارروائیوں سے جنگ جیت نہیں سکتے‘ وہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں مل کر طالبان کو تنہا کرنا ہو گا۔ افغان طالبان ایک حقیقت ہیں ان کو کلی طور پر افغانستان بدر کیا جا سکتا ہے نہ ان کا خاتمہ ممکن ہے۔ ان کو تنہا کس طرح کرنا اور کس سے کرنا ہے؟ ان کا تو اداروں اور فورسز تک میں اثر و نفوذ ہے۔ وہ جب چاہتے اور جہاں چاہتے ہیں اپنی قوت کا مظاہرہ کر جاتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے واحد راستہ نیک نیتی سے مذاکرات ہیں جس پر سلیوان نے بھی زور دیا ہے۔ پاکستان کو جب بھی کہا گیا اس نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کردار کے لئے پاکستان آج بھی تیار ہے۔ طالبان سے غیر مشروط طور پر ہتھیار نہیں رکھوائے جا سکتے۔ ان کو اقتدار میں شامل کرنے کی طرف آئیں تو کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی حل ہوتا تو دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اس کو بروئے عمل لا چکا ہوتا۔